سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا گھر جلایا تھا؟

  • 5206
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-28
  • مشاہدات : 60

سوال

کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا گھر جلایا تھا؟

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شیعہ حضرات اس طرح کے جھوٹے واقعات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی طرف منسوب کرتے ہیں جس سے ان کا مقصد یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا رویہ اہل بیت کے ساتھ اچھا نہیں تھا۔ سیدنا عمررضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی یہ جھوٹا قصہ گھڑکر منسوب کر دیا گیا ، حالانکہ اس طرح کے واقعہ کسی بھی صحابی سے ہونا ممکن ہی نہیں ہے چہ جائے کہ سیدنا عمررضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ گمان کیا جائے کہ انہوں نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کا گھر جلا دیا تھا۔

درج ذیل وجوہات کی بناپر یہ قصہ جھوٹا ہے:

1. اس دور میں کسی عام آدمی کا ایک عام عورت پرحملہ کرنا نہایت سنگین جرم تصور ہوتا تھا تو کئی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا اکھٹے ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کے گھر کو جلا دینا کیسے ممکن ہے؟! کیا باقی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے (جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ پراپنی جانیں تک نچھاور کرنے میں گریز نہیں کرتے تھے) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کا گھر جلنے دیا اور کسی طرح کی مزاحمت نہیں کی؟!

2. شیعہ حضرات سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو عالم الغیب سمجھتے ہیں،  ان کی شجاعت اوربہادری کے بہت سے سچے جھوٹے قصے بیان کرتے ہیں، وہ اس موقع پرکہاں تھے؟ انہوں نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو پہلے سے خبردار کیوں نہ کیا؟! انہوں نے اپنی بیوی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کا دفاع کیوں نہیں کیا؟!

3. سیدنا عمر اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما کا باہمی اچھا تعلق بھی اس واقعے کی نفی کرتا ہے۔ یہ تعلق اتنا اچھا تھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنی اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی بیٹی کی شادی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کردی۔

4. اگر شیعہ حضرات یہ کہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کمزور تھے اس لیے وہ اپنی بیوی کے گھر کو جلنےسے نہیں بچا سکے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ باقی اہل بیت کہاں تھے؟ انہوں نے اپنے نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کا دفاع کیوں نہیں کیا؟!

5. اس واقعہ  کو شیعوں کے بعض بڑوں نے بھی جھوٹا قرار دیا ہے۔  (دیکھیں: جنۃ الماوی، صفحہ نمبر 135)

6. اس واقعہ کے جھوٹا ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ یہ واقعہ شیعہ کی معتبرکتابوں میں موجود نہیں ہے۔  یہ واقعہ  "السقيفة" نامی کتاب میں مذکور ہے جو ایک رافضی سليم بن قيس الهلالی کی تصنیف ہے، اس کتاب کی مذمت کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ  اس میں ایسے اقوال بھی موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ نعوذ باللہ قرآن مجید میں تحریف ہوچکی ہے، جو شخص گمراہی میں اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اس نے قرآن مجید کو بھی نہیں بخشا تو اس سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے بارے میں اچھا گمان رکھنے کی امید کیسے کی جا سکتی ہے۔

والله أعلم بالصواب.

ماخذ:محدث فتویٰ کمیٹی