سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

كسی امام کی اندھی تقلید کرنا جائز نہیں ہے

  • 5205
  • تاریخ اشاعت : 2024-10-28
  • مشاہدات : 258

سوال

اکثر حنفیو ں کی طرف سے مجھے یہ کافی بار کہا گیا ہے کےغیر مقلد اجماع، قیاس اور ائمہ اربعہ کو نہیں مانتے اور نا ہی صحابہ کے اقوال اور انکے عمل کو حجت مانتے ہے اسکے بارے میں وضاحت فرما دیں، اسکی حقیقت کیا ہے؟

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن مجید کی متعدد آیات میں اللہ تعالی نے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے کا حکم دیا ہے، لہذا  اگر کسی کی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے مخالف ہوگی تو اسے ٹھکرا دیا جائے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے آگے کسی کی بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے:

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا (59)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ کاحکم مانو اوررسول کا حکم مانو اوران کا بھی جو تم میں سے حکم دینے والے ہیں، پھراگر تم کسی چیز میں جھگڑ پڑو تواسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ، اگرتم اللہ اوریوم آخر پرایمان رکھتے ہو، یہ بہتر ہے اورانجام کے لحاظ سے زیادہ اچھا ہے۔

او ر فرمایا:

وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (الحشر: 7).

اوررسول تمھیں جو کچھ دےتو وہ لے لو اور جس سے تمھیں روک دے تو رک جاؤ اوراللہ سے ڈرو، یقینا اللہ بہت سخت سزا دینے والا ہے۔

اور فرمايا:

وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا (الأحزاب: 36).

اورکبھی بھی نہ کسی مومن مرد کا حق ہے اور نہ کسی مومن عورت کا کہ جب اللہ اوراس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کر دیں کہ ان کے لیے ان کے معاملے میں اختیار ہواور جوکوئی اللہ اور اس کے رسول کی نا فرمانی کرے سو یقینا وہ گمراہ ہو گیا، واضح گمراہ ہونا۔

اور فرمايا:

اتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ (الأعراف: 3).

اس کے پیچھے چلو جو تمھاری طرف تمھارے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے اوراس کے سوا اور دوستوں کے پیچھے مت چلو۔ بہت کم تم نصیحت قبول کرتے ہو۔

اور فرمايا:

فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (النور: 63).

سولازم ہے کہ وہ لوگ ڈریں جو اس کا حکم ماننے سے پیچھے رہتے ہیں کہ انھیں کوئی فتنہ آپہنچے، یا انہیں درد ناک عذاب آ پہنچے۔

1. اللہ تعالی کی اطاعت کرنے سے مراد یہ ہے کہ قرآن مجید کی اطاعت کی جائے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اطاعت ہے۔

2. سنت کی اطاعت بھی درحقیقت اللہ تعالی کی ہی اطاعت ہے، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی قرآن مجید کی طرح وحی ہے، تو جیسے قرآن کی اطاعت کرنا ضروری ہے ویسے ہی سنت رسول کی اطاعت کرنا بھی ضروری ہے ۔

ارشاد باری تعالی ہے:

مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ وَمَنْ تَوَلَّى فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا (النساء:80)

جو رسول کی فرماں برداری کرے تو بے شک اس نے اللہ تعالی کی فرماں برداری کی اور جس نے منہ موڑا تو ہم نےتجھے ان پر کوئی نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔

اور فرمایا:

وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى (النجم: 3-4)

اورنہ وہ اپنی خواہش سے بولتا ہے۔ وہ تو صرف وحی ہے جو نازل کی جاتی ہے۔

 سیدنا ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

مَنْ أَطَاعَنِي فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ عَصَى اللَّهَ وَمَنْ أَطَاعَ أَمِيرِي فَقَدْ أَطَاعَنِي وَمَنْ عَصَى أَمِيرِي فَقَدْ عَصَانِي (صحيح البخاري، الأحكام: 7137)

 جس نے میری اطاعت کی اس نے گویا اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نا فرمانی کی اس نے گویا اللہ کی نافرمانی کی۔ جس نے میرے امیرکی بات مانی اس نے میری بات مانی اور جس نے میرے امیر کی خلاف ورزی کی اس نے گویا میری خلاف ورزی کی۔

1. ہم تمام آئمہ کرام کا احترام کرتے ہیں، چاہے وہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہوں یا امام مالک رحمہ اللہ، امام شافعی رحمہ اللہ ہوں یا امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ یا ان کے علاوہ کوئی بھی عالم دین جو سلف صالحین کے منہج کو اختیارکرنے والا ہو ہمارے ہاں قابل قدر ہے، لیکن ہم کسی ایک کی اندھی تقلید کو جائزنہیں سمجھتے ہیں بلکہ  کسی بھی امام کی بات اگر حدیث کے موافق ہے تو ہم اس کو بخوشی تسلیم کرتے ہیں اور اس پرعمل کرتے ہیں لیکن اگر کسی امام کا قول واضح اور صحیح حدیث کے خلاف ہو تو ہم اسے تسلیم نہیں کرتے بلکہ حدیث پرعمل کرنا واجب سمجھتے ہیں کیونکہ ہمیں قرآن و حدیث کی پیروی کرنے کاحکم دیا گیا ہے اوراسی کی پیروی میں ہی  دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔

1. ہم قیاس کو بھی معتبر دلیل مانتے ہیں، بلکہ بہت سے شرعی احکامات کی دلیل قیاس ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی کئی ایک مواقع پر قیاس کیا ہے اورآپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم بھی قیاس کیا کرتے تھے ۔

2. صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے اقوال بھی ہمارے ہاں حجت ہیں، ان سے بڑھ کر شریعت کا فہم کن کو ہو سکتا ہے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا، ان کے سامنے قرآن نازل ہوتا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہی کےسامنے شریعت کے احکامات دیا کرتے تھے، وہ عربی زبان کے ماہر تھے ، اس لیے ہمارے ہاں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے قرآن وسنت کے فہم کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔

 

والله أعلم بالصواب.

تبصرے