سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

اگر امام تیز رفتاری سے نماز پڑھاتا ہو

  • 5203
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-01
  • مشاہدات : 124

سوال

اگر کسی شخص کے گھر کے نزدیک ایک ایسی مسجد ہے جس کے امام کی نماز سنت کے مطابق نہیں ہے یا وہ بہت تیز رفتاری سے نماز پڑھاتےہیں کہ ان کی اقتداء میں نماز ادا کرتے ہوئے نماز کے ارکان کی ادائیگی بھی مناسب انداز سے نہیں ہو پاتی، کیا ایسی صورت میں جماعت کے بغیر گھر میں نماز پڑھنا جائز ہے؟

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگرامام سنت کے مطابق نماز نہ پڑھاتا ہو یا ارکان کوصحیح طریقے سے ادا نہ کرتا ہو تواس کے پیچھے نماز پڑھنا صحیح نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا:

صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي (صحيح البخاري، الأذان: 631)

تم نے جس طرح مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے اسی طرح نماز پڑھا کرو۔

 

نماز کو اطمینان کے ساتھ ادا کرنا نماز کا رکن ہے ۔

سيدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ ایک دفعہ مسجد میں تشریف لائے تو ایک اور آدمی بھی مسجد میں داخل ہوا۔ اس نے نماز پڑھی اس کے بعد نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس نے سلام عرض کیا۔ نبی ﷺ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: ’’واپس جا، نماز پڑھ تو نے نماز نہیں پڑھی۔‘‘ اس نے پھر نماز پڑھی، واپس آیا اور نبی ﷺ کو سلام عرض کیا۔ آپ نے دوبارہ فرمایا: ’’جا، نماز پڑھ، اس لیے کہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔‘‘ بہرحال ایسا واقعہ تین مرتبہ پیش آیا۔ بالآخر اس شخص نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے! میں اس سے بہتر نماز نہیں پڑھ سکتا۔ آپ مجھے نماز کی تعلیم دیں،(اس کے بعد) آپ نے فرمایا: ’’جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اللہ أکبر کہو،پھر قرآن سے جو میسر ہو اسے پڑھو، پھر رکوع کرو۔ جب اطمینان سے رکوع کر لو تو سر اٹھا کر سیدھے کھڑے ہوجاؤ۔ اس کے بعد سجدہ کرو۔ جب اطمینان سے سجدہ کر لو تو سراٹھا کراطمینان سے بیٹھ جاؤ، اس کے بعد (دوسرا) سجدہ کرو تاکہ سجدے میں تجھے اطمینان ہو جائے۔ پھراس طرح اپنی ساری نماز میں کرو۔ (صحيح البخاري، الأذان: 793،  صحيح مسلم،  الصلاة: 397)

 

01. امام كو احسن انداز سے سمجھایا جائے کہ وہ سنت طریقے سے نماز پڑھے اورنماز کے ارکان کو اطمینان کے ساتھ ادا کرے، اگر پھر بھی وہ اپنی روش پر قائم رہے تواگر اس امام کی جگہ کوئی دوسرا امام متعین کیا جاسکتا ہو تو امام کو بدل دیا جائے۔

02. اگر امام کو بدلنا ممکن نہ ہو یا اس سے فساد بڑھنے کا خدشہ ہو تو دوسری مسجد میں جا کر باجماعت نماز ادا کی جائے کیونکہ نماز باجماعت ادا کرنا فرض ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے:

وَإِذَا كُنْتَ فِيهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلَاةَ فَلْتَقُمْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ مَعَكَ وَلْيَأْخُذُوا أَسْلِحَتَهُمْ فَإِذَا سَجَدُوا فَلْيَكُونُوا مِنْ وَرَائِكُمْ وَلْتَأْتِ طَائِفَةٌ أُخْرَى لَمْ يُصَلُّوا فَلْيُصَلُّوا مَعَكَ (النساء: 102)

اورجب توان میں موجود ہو، پس ان کے لیے نماز کھڑی کرے تو لازم ہے کہ ان میں سے ایک جماعت تیرے ساتھ کھڑی ہو اوروہ اپنے ہتھیار پکڑے رکھیں، پھر جب وہ سجدہ کر چکیں تو تمھارے پیچھے ہو جائیں اور دوسری جماعت آئے جنھوں نے نماز نہیں پڑھی، پس تیرے ساتھ نماز پڑھیں۔

اللہ تعالی نے حالت جنگ میں باجماعت نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے اوراحادیث  میں جنگ کے دوران نماز پڑھنے کی مختلف کیفیات کا تفصیل کے ساتھ ذکر موجود ہے اس سے ہمیں آگاہی ملتی ہے کہ عام حالات میں بھی باجماعت نماز پڑھنا واجب ہے۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِحَطَبٍ، فَيُحْطَبَ، ثُمَّ آمُرَ بِالصَّلاَةِ، فَيُؤَذَّنَ لَهَا، ثُمَّ آمُرَ رَجُلًا فَيَؤُمَّ النَّاسَ، ثُمَّ أُخَالِفَ إِلَى رِجَالٍ، فَأُحَرِّقَ عَلَيْهِمْ بُيُوتَهُمْ (صحيح البخاري، الأذان: 644،  صحيح مسلم،  المساجد ومواضع الصلاة: 651)

’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ کسی کو لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دوں تاکہ لکڑیوں کا ڈھیر لگ جائے، پھر نماز کے لیے کسی کو اذان دینے کے متعلق کہوں، پھر کسی شخص کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کا امام بنے اور میں خود ان لوگوں کے پاس جاؤں (جو جماعت میں شریک نہیں ہوتے)، پھر انہیں ان کے گھروں سمیت جلا دوں۔‘‘ 

والله أعلم بالصواب.

محدث فتوی کمیٹی

01. فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

02. فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

03. فضیلۃ الشیخ عبد الخالق حفظہ اللہ

04. فضیلۃ الشیخ اسحاق زاہد حفظہ اللہ 

ماخذ:محدث فتویٰ کمیٹی