الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سوال میں مذکور صورت حال کے مطابق میت کی کل جائیداد کی تقسیم شرعی اصولوں کے مطابق درج ذیل طریقہ سے کی جائے گی:
نمبر شمار میت کا ورثاء جائیداد کی تقسیم سارے مال کے39 حصے کر لیے جائیں فیصد کے لحاظ سے
01. دو سگی بہنیں کل مال کا دو تہائی 26 حصے( ہر بہن کو 13 حصے) %66.7
02. پانچ علاتی بھائی ہر علاتی بھائی کو علاتی بہن سے دوگنا حصہ ملے گا 10 حصے ( ہر بھائی کو2 حصے) %25.6
03. تین علاتی بہنیں 3 حصے( ہر بہن کو 1 حصہ) %7.7
سگی بہنوں کا مال سے دو تہائی حصہ لینے کی دلیل:
ارشاد باری تعالی ہے:
فَإِنْ كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَﱠ (النساء: 176)
پھر اگر وہ دو (بہنیں) ہوں تو ان کے لیے اس میں سے دو تہائی ہو گا جو اس نے چھوڑا۔
علاتی بھائیوں اور علاتی بہنوں کی وراثت کی دلیل:
سگی بہنیں اصحاب الفرائض میں سے ہیں اور علاتی بھائی اور بہنیں عصبہ ہیں، قرآن و حديث كے احکامات کے مطابق میت کی جائیداد کے سب سے پہلے حقدار اصحاب الفروض ہیں، ان سے بچا ہوا ترکہ عصبہ کو ملتا ہے، اس لیے پہلے سگی بہنوں کو دو تہائی مال دیا جائے گا ان سے بچا ہوا مال علاتی بھائی اور بہنوں میں تقسیم ہو گا۔
ارشاد باری تعالی ہے:
وَإِنْ كَانُوا إِخْوَةً رِجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَنْ تَضِلُّوا وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (النساء: 176)
اور اگر وہ کئی بھائی بہن مرد اور عورتیں ہوں تو مرد کے لیے دو عورتوں کے حصے کے برابر ہو گا۔ اللہ تمھارے لیے کھول کر بیان کرتا ہے کہ تم گمراہ نہ ہو جاؤ اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی الله عنهما بيان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَلْحِقُوا الفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَر (صحيح البخاري، الفرائض: 6732)
تم فرض حصے یعنی مقرر حصے ان کے حقداروں تک پہنچا دو اور جو باقی بچ جائے وہ میت کے قریب ترین مرد کے لیے ہے۔
والله أعلم بالصواب
محدث فتوى کمیٹی
01. فضیلۃالشیخ جاويد اقبال سيالكوٹی حفظہ اللہ
02. فضیلۃالشیخ عبد الخالق حفظہ اللہ