سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

جادو كی حالت میں دی ہوئی طلاق کا حکم

  • 5190
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-01
  • مشاہدات : 109

سوال

میں نے ایک لڑکی سے شادی کی، ہم دونوں دس سال سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ ہم اچھی زندگی بسر کر رہے تھے، آٹھ مہینے بعد ہمیں مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ چھوٹی چھوٹی بے مقصد باتوں پر لڑائیاں شروع ہو گئیں۔ہم ایک دوسرے سے کئی کئی ہفتے بات نہیں کرتے تھے۔ ایک دوسرے کو بہت برا سمجھنے لگےاور مجھے کبھی کبھار بیڈ روم سے عجیب عجیب سی آوازیں بھی آتی تھیں۔ میری بیوی مجھے شکایت کرتی تھی کہ اُس کو ڈراؤنے اور خوفناک خواب آتے ہیں۔ ہم دونوں کی ازواجی زندگی بھی خراب ہو گئی تھی جو کہ پہلے بالکل ٹھیک تھی۔ ساتھ ساتھ مجھے ذہن میں آوازیں آتی تھیں کہ وکیل کے پاس جاؤ اور اس کو فارغ کردو۔ میں وکیل کے پاس اپنے بھائی کے ساتھ گیا اور پیپرپر سائن کر کے اس کو بھجوا دیا، میں اس وقت ہوش و حواس میں نہیں تھا، مجھے بالکل بھی علم نہیں تھا کہ میں اپنی زندگی اور گھر خود تباہ کر رہا ہوں۔ میں اقرار کرتا ہوں کہ میں نے اپنے منہ سے طلاق کا ایک لفظ نہیں نکالا صرف پیپر سائن کر کے بھجوا دیا۔ طلاق كے پیپرز سائن کرنے کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ میں اور میری بیوی پر سحر (جادو) ہوا تھا جو ہماری شادی توڑنے کے لیے کسی نے کروایا تھا۔ میں ایک سنی مسلمان ہوں ۔ میں اللہ، قران اور اس کے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتا ہوں اور میرا کوئی طلاق سے دینا لینا نہیں تھاليكن بغیر سوچے سمجھے مجھ سے یہ کام ہو گیا اور میرا گھر ٹوٹ گیا ۔ ہم دونوں بے قصور ہیں۔ میرا سوال آپ سے یہ ہے کہ سحر (جادو) کی حالت میں دی ہوئی طلاق کا کیا حکم ہے؟

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

طلاق کے واقع ہونے کے لیے شرط ہے کہ خاوند ہوش و حواس میں ہواورمجبور نہ ہو، اگر خاوند ہوش و حواس میں نہیں ہے یا مجبورہے تو طلاق واقع نہیں ہوتی۔

امام رحیبانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وَقَدْ أَجْمَعَ الْمُسْلِمُونَ عَلَى أَنَّ مَنْ زَالَ عَقْلُهُ بِغَيْرِ سُكْرٍ مُحَرَّمٍ كَالنَّوْمِ وَالْإِغْمَاءِ وَالْجُنُونِ وَشُرْبِ الدَّوَاء الْمُزِيلِ لِلْعَقْلِ وَالْمَرَضِ؛ لَا يَقَعُ طَلَاقُه (مطالب أولي النهي:جلد نمبر 5، صفحہ نمبر321)

تمام مسلمانوں کا ( امت کے تمام مجتہدعلماء کا )اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر انسان کی عقل نشے کے علاوہ کسی اور چیز جیسے نیند، بے ہوشی، پاگل پن یا دوائی پینے سے زائل ہو جائے تو اس کی طلاق واقع نہیں ہوتی۔

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:

لا طَلاَقَ ولا عِتَاقَ في غَلاَق. (سنن أبي داود، طلاق: 2193)(صحيح)

طلاق اورغلام  آزاد کرنا مجبوری میں نہیں ہوتا۔

اورسیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ وَضَعَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأَ وَالنِّسْيَانَ وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَيْه. سنن ابن ماجه، الطلاق: 2045) (صحيح).

بلاشبہ اللہ تعالی نے میری امت سے غلطی، بھول اور مجبوری کو رکھ دیا ہے (یعنی اس پر مؤاخذہ نہیں ہو گا)۔ 

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:  سیدنا عمر، علی اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین زبردستی لی گئی طلاق کو واقع نہیں کرتے تھے۔ (إعلام الموقعين: جلد نمبر: 5، صفحہ نمبر:189).

 اگر آپ کو واقعتا جادو ہوا ہے اور اس جادو سے آپ کی عقل پر اتنا اثر پڑا کہ آپ پاگل ہو گئے تو آپ کی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

 اگر جادو سے آپ کی عقل زائل نہیں ہوئی لیکن آپ کے ارادے اور اختیار پراس کا اثر ہوا تو پھر بھی آپ کی طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ انسان کا جب اپنا ارادہ نہ ہو تو وہ مجبورہوتا ہے اور مجبورکی طلاق واقع نہیں ہوتی۔

والله أعلم بالصواب.

محدث فتوی کمیٹی

01. فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

02. فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

03. فضیلۃ الشیخ عبد الخالق حفظہ اللہ

04. فضیلۃ الشیخ اسحاق زاہد حفظہ اللہ 

ماخذ:محدث فتویٰ کمیٹی