الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہمارے علم کے مطابق اس سے ملتی جلتی ایک حدیث ہے جس کو سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک نوجوان آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اورعرض کرنے لگا کہ اے اللہ کے رسول مجھے زنا کرنے کی اجازت دیجیے، تمام لوگ اس کو ڈانٹنے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کہا قریب ہو جا چنانچہ وہ آپ کے قریب ہوگیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سے پوچھا:
أَتُحِبُّهُ لِأُمِّكَ؟ قَالَ: لَا. وَاللهِ جَعَلَنِي اللهُ فِدَاءَكَ. قَالَ: " وَلَا النَّاسُ يُحِبُّونَهُ لِأُمَّهَاتِهِمْ ". قَالَ: " أَفَتُحِبُّهُ لِابْنَتِكَ؟ " قَالَ: لَا. وَاللهِ يَا رَسُولَ اللهِ جَعَلَنِي اللهُ فِدَاءَكَ قَالَ: " وَلَا النَّاسُ يُحِبُّونَهُ لِبَنَاتِهِمْ ". قَالَ: " أَفَتُحِبُّهُ لِأُخْتِكَ؟ " قَالَ: لَا. وَاللهِ جَعَلَنِي اللهُ فِدَاءَكَ. قَالَ: " وَلَا النَّاسُ يُحِبُّونَهُ لِأَخَوَاتِهِمْ ". قَالَ: " أَفَتُحِبُّهُ لِعَمَّتِكَ؟ " قَالَ: لَا. وَاللهِ جَعَلَنِي اللهُ فِدَاءَكَ. قَالَ: " وَلَا النَّاسُ يُحِبُّونَهُ لِعَمَّاتِهِمْ ". قَالَ: " أَفَتُحِبُّهُ لِخَالَتِكَ؟ " قَالَ: لَا. وَاللهِ جَعَلَنِي اللهُ فِدَاءَكَ. قَالَ: " وَلَا النَّاسُ يُحِبُّونَهُ لِخَالَاتِهِمْ ". قَالَ: فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَيْهِ وَقَالَ: " اللهُمَّ اغْفِرْ ذَنْبَهُ وَطَهِّرْ قَلْبَهُ، وَحَصِّنْ فَرْجَهُ " قَالَ : فَلَمْ يَكُنْ بَعْدُ ذَلِكَ الْفَتَى يَلْتَفِتُ إِلَى شَيْءٍ
کیا تو یہ (زنا) اپنی ماں کے لیے پسند کرتا ہے؟ اس شخص نے کہا بالکل بھی نہیں، اللہ کی قسم، اللہ مجھے آپ پر قربان کرے، پھر آپ نے (اسے) کہا کہ لوگ بھی اپنی ماؤں کے لیے اسے پسند نہیں کرتے، آپ نے پھر کہا کیا تو اسے (زنا کو) اپنی بیٹی کے لیے پسند کرتا ہے؟ اس شخص نے کہا بالکل بھی نہیں، اللہ کی قسم، اللہ مجھے آپ پر قربان کرے، پھر آپ نے کہا کہ لوگ بھی اپنی بیٹیوں کےلیے اسے پسند نہیں کرتے، پھر آپ نے کہا کیا تو یہ (زنا) اپنی پھوپھی کے لیے پسند کرتا ہے؟ اس شخص نے کہا بالکل بھی نہیں، اللہ کی قسم، اللہ مجھے آپ پر قربان کرے، پھر آپ نے (اسے) کہا کہ لوگ بھی اپنی پھوپھیوں کے لیے اسے پسند نہیں کرتے، پھر آپ نے کہا کیا تو یہ (زنا) اپنی خالہ کے لیے پسند کرتا ہے؟ اس شخص نے کہا بالکل بھی نہیں،اللہ کی قسم، اللہ مجھے آپ پر قربان کرے، پھر آپ نے (اسے) کہا کہ لوگ بھی اپنی خالاؤں کے لیے اسے پسند نہیں کرتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سر پراپنا ہاتھ مبارک رکھا اورکہا: اے اللہ اس کے گناہ کو بخش دے اور اس کے دل کو پاک کردے، اور اس کی شرمگاہ کو محفوظ کردے، اس کے بعد وہ نوجوان ایسی کسی چیز کی طرف توجہ نہیں کرتا تھا ۔
1. اسلام میں شادی کرنےکی بہت زیادہ ترغیب دی گئی ہے، جس شخص کے پاس جسمانی اورمالی لحاظ سے شادی کرنے کی استطاعت ہو وہ شادی کرنے میں کسی قسم کی تاخیر نہ کرے، کیونکہ اس کے بے شماردینی اور دنیاوی فوائد ہیں۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نوجوان رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ رہا کرتے تھے، ہمارے پاس کچھ نہیں ہوتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں فرمایا:
مَنِ اسْتَطَاعَ البَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ، فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ (صحيح البخاري، النكاح: 5066، صحيح مسلم، ( النكاح: 1400).
نوجوانو! جو کوئی تم میں سے نکاح کی طاقت رکھتا ہے وہ شادی کرلے کیونکہ نکاح کا عمل آنکھ کوبہت زیادہ
نیچے رکھنے والا اورشرمگاہ کی خوب حفاظت کرنے والا ہے۔ اور جو کوئی اس کی طاقت نہیں رکھتا، اسے
روزے رکھنے چاہییں کیونکہ یہ اس کے لیے شہوت توڑنے والے ہیں۔
1. جس شخص کو حرام اوربدکاری میں واقع ہونے کا خدشہ ہو اس پر فوری شادی کرنا واجب ہے، وہ بغیر کسی تاخیر کے شادی کرے اورحلال ذریعہ سے اپنی خواہش کو پورا کرے۔
والله أعلم بالصواب.