سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

ولی کی اجازت کےبغیر خود ہی ایجاب وقبول کر لینا

  • 5144
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 51

سوال

میں ایک لڑکی سے پیار کرتا تھا ۔ میں نے اس کے گھر رشتہ بھیجا لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ ہماری منگنی ہو گئی۔ ہم ایک دوسرے سے فون پر باتیں کر نے لگے۔ ایک دن ہم دونوں نے یہ سوچا کہ نکاح پڑھ لیا جائے، ہم دونوں نے میسج پر ایک دوسرے کو قبول کر لیا۔ حق مہرکے طور پر ایک گھڑی طے کی۔ گواہ موجود نہیں تھا، لیکن ان میسجز کے سکرین شاٹ میرے پاس موجود ہیں۔ اب کسی وجہ سے ہماری منگنی ٹوٹ گئی ہے، مجھے بتائیں کہ کیا ہمارا نکاح ہو گیا کہ نہیں؟

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شریعت اسلامیہ میں مردوزن کو بدکاری و فحاشی، عریانی و بے حیائی سے محفوظ رکھنے کے لئے نکاح کی اہمیت انتہائی زیادہ ہے۔ شیاطین اوراس کے چیلے جو مسلمان کے ازلی دشمن ہیں اسے راہ راست سے ہٹانے کے لئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ 

 اسلام نے کسی مرد یا عورت کو اجازت نہیں دی کہ وہ غیر محرم مرد یا عورت سے گپ  شپ لگائے۔ اگر کوئی ضروری کام ہو تو ضرورت کی حد تک بات کی جا سکتی ہے۔ جیساکہ ارشاد باری تعالی ہے:

ﱡوَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ ﱠ. (الأحزاب: 53).

اورجب تم ان سےکوئی سامان مانگو توان سے پردے کے پیچھے سے مانگو، یہ تمھارے دلوں او ران کے دلوں کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔

اس لیے آپ  کا اس لڑکی سے میل جول رکھنا اورگپ گپ لگانا ہی حرام اور کبیرہ گنا ہ ہے آپ پر لازم ہے کہ آپ اس گناہ سے رب کے حضور توبہ کریں، اپنے کیے پرنادم ہوں اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا پختہ ارداہ کریں۔

شرعی حکم کے مطابق نکاح میں ولی اور دو گواہوں کا ہونا شرط ہے۔ 

سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

لا نِكَاحَ إلا بِوَليٍّ (سنن أبي داود، النكاح:2085، سنن ترمذي، النكاح: 1101، سنن ابن ماجه، النكاح: 1881) (صحیح).

ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔

دوسری حدیث میں سیدہ  عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

أيُّما امرأةٍ نكَحَتْ بغيرِ إذن مَوَاليها فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ. (سنن أبي داود، النكاح: 2083، سنن ترمذي، النكاح: 1102) (صحيح).

جوعورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیرنکاح کرے گی اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے۔

اسی طرح نکاح کے وقت دو گواہوں کی موجودگی بھی شرط ہے۔ جیسا کہ  سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ، وَشَاهِدَيْ عَدْل. (صحیح الجامع: 7557).

ولی اور دو گواہوں کی موجودگی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔

مندرجہ بالا احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نکاح میں ولی کی رضامندی اورگواہوں کی موجودگی ضروری ہے۔

 آپ نے جو فون پرایک دوسرے کو قبول کر لیا تھا اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور نہ ہی لڑکی کے پاس ایسا کرنے کا اختیار ہے۔

ایجاب وقبول نکاح کےارکان میں سے ہے اورشریعت کی رو سے ایجاب کے الفاظ عورت کے ولی یا پھراس کے قائم مقام کی طرف سے ادا کیے جاتے ہیں۔  قبولیت کے الفاظ خاوند یا اس کا قائم مقام ادا کرے گا۔ 

 آپ دونوں نے جو اپنے طورپرنکاح کیا ہے اس میں ایجاب وقبول دونوں خود ہی کرلیے ہیں، لڑکی کے ولی (باپ) کو اس کا علم تک نہیں ہے، اس لیے آپ کا یہ نکاح باطل ہے ۔ وہ لڑکی آپ کے لیے اجنبی ہے اس سے کسی قسم کا تعلق رکھنا حرام ہے۔

 اگرآپ اس لڑکی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں تو شرعی طریقہ نکاح کے مطابق ولی کی اجازت،عورت کی رضامندی ، دوگواہ اور حق مہرمقرر کرکے نکاح کر سکتے ہیں۔

والله أعلم بالصواب.

ماخذ:محدث فتویٰ کمیٹی