سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

نماز کب فرض کی گئی؟

  • 5143
  • تاریخ اشاعت : 2024-09-17
  • مشاہدات : 34

سوال

نماز کب فرض ہوئی؟ تفصیل سے وضاحت کردیں۔

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سیدنا انس رضی اللہ عنہ واقعہ معراج کی حدیث بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

فَأَوْحَى اللهُ إِلَيَّ مَا أَوْحَى، فَفَرَضَ عَلَيَّ خَمْسِينَ صَلَاةً فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، فَنَزَلْتُ إِلَى مُوسَى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا فَرَضَ رَبُّكَ عَلَى أُمَّتِكَ؟ قُلْتُ: خَمْسِينَ صَلَاةً، قَالَ: ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ، فَإِنَّ أُمَّتَكَ لَا يُطِيقُونَ ذَلِكَ، فَإِنِّي قَدْ بَلَوْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَخَبَرْتُهُمْ "، قَالَ: " فَرَجَعْتُ إِلَى رَبِّي، فَقُلْتُ: يَا رَبِّ، خَفِّفْ عَلَى أُمَّتِي، فَحَطَّ عَنِّي خَمْسًا، فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى، فَقُلْتُ: حَطَّ عَنِّي خَمْسًا، قَالَ: إِنَّ أُمَّتَكَ لَا يُطِيقُونَ ذَلِكَ، فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ "، قَالَ: " فَلَمْ أَزَلْ أَرْجِعُ بَيْنَ رَبِّي تَبَارَكَ وَتَعَالَى، وَبَيْنَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ حَتَّى قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، إِنَّهُنَّ خَمْسُ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، لِكُلِّ صَلَاةٍ عَشْرٌ، فَذَلِكَ خَمْسُونَ صَلَاةً (صحيح مسلم، الإيمان: 162)

 پھر اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی کی جو کی، اور مجھ پر ہر دن رات میں پچاس نمازیں فرض کیں، میں اتر کر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، تو انہوں نے کہا: آپ کے رب نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا: پچاس نمازیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اپنے رب کے پاس واپس جائیں اور اس سے تخفیف کی درخواست کریں، کیونکہ آپ کی امت (کے لوگوں) کے پاس اس کی طاقت نہ ہو گی، میں بنی اسرائیل کو آزما چکا ہوں اور پرکھ چکا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تو میں واپس اپنے رب کے پاس گیا اور عرض کی: اے میرے رب! میری امت پر تخفیف فرما۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پانچ نمازیں کم کر دیں۔ میں موسیٰ علیہ السلام کی طرف آیا اور کہا: اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پانچ نمازیں گھٹا دیں۔ انہوں نے کہا: آپ کی امت کے پاس (اتنی نمازیں پڑھنے کی) طاقت نہ ہو گی۔ اپنے رب کی طرف لوٹ جائیے اور اس سے تخفیف کا سوال کیجیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں اپنے رب تبارک وتعالیٰ اور موسیٰ  علیہ السلام کے درمیان آتا جاتا رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے محمد! ہر دن اور رات میں پانچ نمازیں ہیں اور (اجر میں) ہر نماز کے لیے دس ہیں، (اس طرح) یہ پچاس نمازیں ہیں۔

 

مندرجہ بالا حدیث کی بنا پر علماء کرام  کا اس بات پر اجماع ہے کہ پانچ نمازوں کی فرضیت معراج کی رات ہوئی (دیکھیں: التمہید از ابن عبد البر، جلد نمبر8، صفحہ نمبر 35)

 

1۔ بہت سی احادیث مبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم واقعہ معراج سے پہلے بھی نماز پڑھا کرتے تھے۔ جیسا کہ ہرقل والی حدیث میں ہے کہ جب ہرقل نے ابوسفیان رضی اللہ عنہ سے پوچھا:

مَاذَا يَأْمُرُكُمْ؟ قُلْتُ: يَقُولُ: اعْبُدُوا اللَّهَ وَحْدَهُ وَلاَ تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَاتْرُكُوا مَا يَقُولُ آبَاؤُكُمْ، وَيَأْمُرُنَا بِالصَّلاَةِ وَالزَّكَاةِ وَالصِّدْقِ وَالعَفَافِ وَالصِّلَةِ (صحيح البخاري، بدء الوحي: 7)

 وہ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم) تمہیں کن باتوں کا حکم دیتا ہے؟ میں نے کہا: وہ کہتا ہے: صرف اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو اور اپنے باپ دادا کی (شرکیہ) باتیں چھوڑ دو، اور وہ ہمیں نماز، سچائی، پرہیزگاری، پاکدامنی اور قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتا ہے۔

 

امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

فَلَمَّا كَانَ لَيْلَةُ الْإِسْرَاءِ قَبْلَ الْهِجْرَةِ بِسَنَةٍ وَنِصْفٍ فَرَضَ اللَّهِ تَعَالَى عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ وَفَصَّلَ شُرُوطَهَا وَأَرْكَانَهَا وَمَا يَتَعَلَّقُ بِهَا بَعْدَ ذَلِكَ شَيْئًا فَشَيْئًا (تفسیر ابن کثیر: 7/150)

واقعہ اسراء (ومعراج) ہجرت سے ڈیڑھ سال پہلے ہوا تھا، (اس موقعہ پر) اللہ تعالی نے اپنے رسول پر پانچ نمازیں فرض کیں، پھر اس کی شروط، ارکان اور اس سے متعلقہ چیزیں کی تفصیل آہستہ آہستہ بیان فرمائی۔

 

1۔ واقعہ معراج کی صبح جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نمازوں کے اوقات کے بارے میں آگاہ کیا۔

سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:

جَاءَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ زَالَتِ الشَّمْسُ فَقَالَ: قُمْ يَا مُحَمَّدُ فَصَلِّ الظُّهْرَ حِينَ مَالَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ مَكَثَ حَتَّى إِذَا كَانَ فَيْءُ الرَّجُلِ مِثْلَهُ جَاءَهُ لِلْعَصْرِ فَقَالَ: قُمْ يَا مُحَمَّدُ فَصَلِّ الْعَصْرَ، ثُمَّ مَكَثَ حَتَّى إِذَا غَابَتِ الشَّمْسُ جَاءَهُ فَقَالَ: قُمْ فَصَلِّ الْمَغْرِبَ، فَقَامَ فَصَلَّاهَا حِينَ غَابَتِ الشَّمْسُ سَوَاءً، ثُمَّ مَكَثَ حَتَّى إِذَا ذَهَبَ الشَّفَقُ جَاءَهُ فَقَالَ: قُمْ فَصَلِّ الْعِشَاءَ فَقَامَ فَصَلَّاهَا، ثُمَّ جَاءَهُ حِينَ سَطَعَ الْفَجْرُ فِي الصُّبْحِ فَقَالَ: قُمْ يَا مُحَمَّدُ فَصَلِّ، فَقَامَ فَصَلَّى الصُّبْحَ، ثُمَّ جَاءَهُ مِنَ الْغَدِ حِينَ كَانَ فَيْءُ الرَّجُلِ مِثْلَهُ فَقَالَ: قُمْ يَا مُحَمَّدُ فَصَلِّ، فَصَلَّى الظُّهْرَ، ثُمَّ جَاءَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ حِينَ كَانَ فَيْءُ الرَّجُلِ مِثْلَيْهِ فَقَالَ: قُمْ يَا مُحَمَّدُ فَصَلِّ، فَصَلَّى الْعَصْرَ، ثُمَّ جَاءَهُ لِلْمَغْرِبِ حِينَ غَابَتِ الشَّمْسُ وَقْتًا وَاحِدًا لَمْ يَزُلْ عَنْهُ فَقَالَ: قُمْ فَصَلِّ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ، ثُمَّ جَاءَهُ لِلْعِشَاءِ حِينَ ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ الْأَوَّلُ فَقَالَ: قُمْ فَصَلِّ، فَصَلَّى الْعِشَاءَ، ثُمَّ جَاءَهُ لِلصُّبْحِ حِينَ أَسْفَرَ جِدًّا فَقَالَ: قُمْ فَصَلِّ، فَصَلَّى الصُّبْحَ، فَقَالَ: مَا بَيْنَ هَذَيْنِ وَقْتٌ كُلُّهُ (سنن نسائي، المواقيت: 526) (صحيح)

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جبریل علیہ السلام زوال شمس کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)! اٹھیے اور ظہر کی نماز پڑھیے، جب سورج ڈھل گیا۔ پھر ٹھہرے حتیٰ کہ جب آدمی کا سایہ اس کے برابر ہوگیا تو وہ عصر کی نماز کے لیے آپ کے پاس آئے اور کہا: اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)! اٹھیے اور عصر کی نماز پڑھیے۔ پھر کچھ دیر ٹھہرے حتیٰ کہ جب سورج غروب ہوگیا تو پھر آئے اور کہا: اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)! اٹھیےاور مغرب کی نماز پڑھیے۔ آپ اٹھے اور مغرب کی نماز پڑھی جب سورج پورا ڈوب گیا۔ پھر ٹھہرے حتیٰ کہ جب سرخی غائب ہوگئی تو پھر آپ کے پاس آئے اور کہا: اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)! اٹھیے اور عشاء کی نماز پڑھیے۔ آپ اٹھے اور آپ نے عشاء کی نماز پڑھی۔ پھر آپ کے پاس آئے جب صبح کو فجر کی روشنی چمک اٹھی اور کہا: اٹھیے اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور نماز پڑھیے۔ آپ اٹھے اور صبح کی نماز پڑھی۔ پھر اگلے دن آپ کے پاس آئے جب ہر آدمی کا سایہ اس کے برابر ہوگیا اور کہا: اٹھیے اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)! اور نماز پڑھیے تو آپ نے ظہر کی نماز پڑھی۔ پھر آپ کے پاس جبریل علیہ السلام آئے جب آدمی کا سایہ دگنا ہوگیا اور کہا: اٹھیے اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)! اور نماز پڑھیے۔ تو آپ نے عصر کی نماز پڑھی، پھر وہ مغرب کی نماز کے لیے آپ کے پاس آئے جب سورج غروب ہوا، کل والے وقت پر ہی اور کہا: اٹھیے اور نماز پڑھیے تو آپ نے مغرب کی نماز پڑھی۔ پھر وہ عشاء کی نماز کے لیے آپ کے پاس آئے جب رات کا پہلا تہائی حصہ گزر چکا تھا اور کہا: اٹھیے اور نماز پڑھیے تو آپ نے عشاء کی نماز پڑھی۔ پھر وہ صبح کی نماز کے لیے آپ کے پاس آئے اور جب خوب روشنی ہوچکی تھی اور کہا: اٹھیے اور نماز پڑھیے تو آپ نے صبح کی نماز پڑھی۔ پھر جبریل کہنے لگے: تمام نمازوں کا وقت ان دو دنوں کی نمازوں کے درمیان ہے۔

1۔ شروع میں جب پانچ نمازیں فرض ہوئیں تو ہر نماز کی دو رکعتیں فرض تھیں، پھر ہجرت کے بعد سفر میں دو رکعتیں فرض کر دی گئیں اورمقامی افراد کے لیے دو رکعتوں کا اضافہ کر دیا گیا،  سوائے مغرب کی نماز کے، وہ اپنی حالت پر ہی برقرار رہی۔

سيده عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

فُرِضَتِ الصَّلَاةُ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ فِي الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ، فَأُقِرَّتْ صَلَاةُ السَّفَرِ، وَزِيدَ فِي صَلَاةِ الْحَضَرِ (صحيح مسلم، صلاة المسافرين وقصرها: 685)

سفر اور حضر(مقیم ہونے کی حالت) میں نماز دو دور رکعت فرض کی گئی تھی، پھر سفر کی نماز(پہلی حالت پر) قائم رکھی گئی اور حضر کی نماز میں اضافہ کردیا گیا۔

والله أعلم بالصواب.

محدث فتوی کمیٹی        

تبصرے