الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شریعت اسلامیہ میں مرد و زن کو بدکاری و فحاشی، عریانی و بے حیائی سے محفوظ رکھنے کے لئے نکاح کی اہمیت انتہائی زیادہ ہے۔ شیاطین اور اس کے چیلے جو مسلمان کے ازلی دشمن ہیں اسے راہ راست سے ہٹانے کے لئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتے رہتے ہیں۔
اسلام نے کسی مرد یا عورت کو اجازت نہیں دی کہ وہ غیر محرم مرد یا عورت سے گپ شپ لگائے۔ اگر کوئی ضروری کام ہو تو ضرورت کی حد تک بات کی جا سکتی ہے۔ جیساکہ ارشاد باری تعالی ہے:
وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ (الأحزاب: 53)
اور جب تم ان سے کوئی سامان مانگو تو ان سے پردے کے پیچھے سے مانگو، یہ تمھارے دلوں اور ان کے دلوں کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔
اس لیے آپ کا اس لڑکی سے میل جول رکھنا اور گپ شپ لگانا ہی حرام اور کبیرہ گناہ ہے آپ پر لازم ہے کہ آپ اس گناہ سے رب کے حضور توبہ کریں، اپنے کیے پر نادم ہوں اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا پختہ ارداہ کریں۔
شرعی حکم کے مطابق نکاح میں ولی اور دو گواہوں کا ہونا شرط ہے۔
سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا نِكَاحَ إلا بِوَلي سنن أبي داود، النكاح:2085، سنن ترمذي، النكاح: 1101، سنن ابن ماجه، النكاح: 1881) (صحیح)
ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔
دوسری حدیث میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أيُّما امرأةٍ نكَحَتْ بغيرِ إذن مَوَاليها فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ (سنن أبي داود، النكاح: 2083، سنن ترمذي، النكاح: 1102) (صحيح)
جو عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے گی اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے۔
اسی طرح نکاح کے وقت دو گواہوں کی موجودگی بھی شرط ہے۔ جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ، وَشَاهِدَيْ عَدْل. (صحیح الجامع: 7557)
ولی اور دو گواہوں کی موجودگی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔
مندرجہ بالا احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نکاح میں ولی کی رضامندی ضروری ہے۔
آپ نے جو فون پر عورت سے اجازت لی ہے اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور نہ ہی لڑکی کے پاس ایسا کرنے کا اختیار ہے۔
ایجاب وقبول نکاح کے ارکان میں سے ہے اور شریعت کی رو سے ایجاب کے الفاظ عورت کے ولی یا پھر اس کے قائم مقام کی طرف سے ادا کیے جاتے ہیں۔ قبولیت کے الفاظ خاوند یا اس کا قائم مقام ادا کرے گا۔
آپ نے جو اپنے طور پر نکاح کیا ہے اس میں ایجاب وقبول دونوں خود ہی کر لیے ہیں لڑکی کے ولی (باپ) کو اس کا علم تک نہیں ہے اس لیے آپ کا یہ نکاح باطل ہے ۔ وہ لڑکی آپ کے لیے اجنبی ہے اس سے کسی قسم کا تعلق رکھنا حرام ہے۔
اگر آپ اس لڑکی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں تو شرعی طریقہ نکاح کے مطابق ولی کی اجازت، عورت کی رضامندی ، دو گواہ اور حق مہر مقرر کر کے نکاح کر سکتے ہیں۔
والله أعلم بالصواب
محدث فتوى کمیٹی
01- فضیلۃالشیخ جاويد اقبال سيالكوٹی حفظہ اللہ
02- فضیلۃالشیخ عبد الخالق حفظہ اللہ