سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرنا

  • 4952
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 139

سوال

میں ایک سید لڑکی کو پسند کرتا ہوں وہ بھی مجھے پسند کرتی ہے لیکن سید ذات کے لوگ رشتہ صرف سید خاندان میں ہی کرتے ہیں۔ اس وجہ سے میں نے لڑکی کو فون کیا اور کہا کہ کیا تم مجھے قبول کرتی ہو اور کیا تم مجھے اختیار دو گی کہ میں آپ کا نکاح اپنے ساتھ کر لوں؟ اس دوران میں نے فون کی آواز اوپن کر دی تا کہ میرے ساتھ موجود گواہ بھی وہ بات سن لیں ۔ گواہوں نے بھی یہ بات سنی کہ لڑکی نے کہا کہ میں آپ کو قبول کرتی ہوں اور میں آپ کو اجازت دیتی ہوں، پھر میں نے فون بند کر دیا پھر میں نے اپنا بھی ایجاب اور قبول کیا اور اس لڑکی کی طرف سے بھی خود کو قبول کیا اور حق مہر بھی مقرر کر دیا ۔ لڑکی کے گھر والوں کو اس بات کا بالکل بھی علم نہیں ہے تو آپ مجھے بتائیں کہ کیا یہ نکاح ہو گیا؟

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شریعت اسلامیہ میں مرد و زن کو بدکاری و فحاشی، عریانی و بے حیائی سے محفوظ رکھنے کے لئے نکاح کی اہمیت انتہائی زیادہ ہے۔ شیاطین اور اس کے چیلے جو مسلمان کے ازلی دشمن ہیں اسے راہ راست سے ہٹانے کے لئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ 
 اسلام نے کسی مرد یا عورت کو اجازت نہیں دی کہ وہ غیر محرم مرد یا عورت سے گپ  شپ لگائے۔ اگر کوئی ضروری کام ہو تو ضرورت کی حد تک بات کی جا سکتی ہے۔ جیساکہ ارشاد باری تعالی ہے:

وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ (الأحزاب: 53)

اور جب تم ان سے کوئی سامان مانگو تو ان سے پردے کے پیچھے سے مانگو، یہ تمھارے دلوں اور ان کے دلوں کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔
اس لیے آپ  کا اس لڑکی سے میل جول رکھنا اور گپ شپ لگانا ہی حرام اور کبیرہ گناہ ہے آپ پر لازم ہے کہ آپ اس گناہ سے رب کے حضور توبہ کریں، اپنے کیے پر نادم ہوں اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا پختہ ارداہ کریں۔
شرعی حکم کے مطابق نکاح میں ولی اور دو گواہوں کا ہونا شرط ہے۔ 
سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
لا نِكَاحَ إلا بِوَلي سنن أبي داود، النكاح:2085، سنن ترمذي، النكاح: 1101، سنن ابن ماجه، النكاح: 1881) (صحیح)
ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔

دوسری حدیث میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أيُّما امرأةٍ نكَحَتْ بغيرِ إذن مَوَاليها فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ (سنن أبي داود، النكاح: 2083، سنن ترمذي، النكاح: 1102) (صحيح)
جو عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے گی اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے۔
اسی طرح نکاح کے وقت دو گواہوں کی  موجودگی بھی شرط ہے۔ جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ، وَشَاهِدَيْ عَدْل. (صحیح الجامع: 7557)
ولی اور دو گواہوں کی موجودگی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔
مندرجہ بالا احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نکاح میں ولی کی رضامندی ضروری ہے۔
آپ نے جو فون پر عورت سے اجازت لی ہے اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور نہ ہی لڑکی کے پاس ایسا کرنے کا اختیار ہے۔
ایجاب وقبول نکاح کے ارکان میں سے ہے اور شریعت کی رو سے ایجاب کے الفاظ عورت کے ولی یا پھر اس کے قائم مقام کی طرف سے ادا کیے جاتے ہیں۔  قبولیت کے الفاظ خاوند یا اس کا قائم مقام  ادا کرے گا۔ 
آپ نے جو اپنے طور پر نکاح کیا ہے اس میں ایجاب وقبول دونوں خود ہی کر لیے ہیں لڑکی کے ولی (باپ) کو اس کا علم تک نہیں ہے اس لیے آپ کا یہ نکاح باطل ہے ۔ وہ لڑکی آپ کے لیے اجنبی ہے اس سے کسی قسم کا تعلق رکھنا حرام ہے۔
اگر آپ اس لڑکی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں تو شرعی طریقہ نکاح کے مطابق ولی کی اجازت، عورت کی رضامندی ، دو گواہ اور حق مہر مقرر کر کے نکاح کر سکتے ہیں۔

والله أعلم بالصواب

محدث فتوى کمیٹی

01- فضیلۃالشیخ جاويد اقبال سيالكوٹی حفظہ اللہ
02- فضیلۃالشیخ عبد الخالق حفظہ اللہ

ماخذ:محدث فتویٰ کمیٹی