الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کسی مسلمان کوکافر کہنا بہت حساس اوراہم معاملہ ہے،اس بارے میں اےنتہائی احتیاط کرنی چاہیے۔ کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو کافرکہے اگرچہ وہ گناہ گاراورفاسق وفاجرہی کیوں نہ ہو۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِأَخِيهِ : يَا كَافِرُ. فَقَدْ بَاءَ بِهِ أَحَدُهُمَا (صحيح البخاري، الأدب: 6103).
جب آدمی اپنے بھائی کو کافر کہہ کے پکارتا ہے تو دونوں میں سے (کہنے والا یا جس کو کہا گیا ہے) ایک کافر ہو جاتا ہے۔
اورسیدنا ثابت بن الضحاک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ قَذَفَ مُؤْمِنًا بِكُفْرٍ، فَهُوَ كَقَتْلِهِ (صحیح البخاری، الأدب: 6047).
جس شخص نےمؤمن آدمی پر کفر کا الزام لگایا، یہ اس کے قتل کرنے کے مترادف ہے۔
لہذا کسی کلمہ گو مسلمان کو بغیر دلیل کے کافر کہنا حرام ہے۔البتہ اگر کوئی مسلمان کلمہ پڑھنے کے باوجود کسی کفریہ کام کا ارتکاب کرتا ہے تو پھر علماء شرائط ونواقض کا خیال رکھتے ہوئے اسے کافر قرار دے سکتے ہیں- لیکن عام آدمی کے پاس اس بات کا اختیارنہیں ہے کہ وہ جس کو چاہے کافر قرار دے دے۔
01.اس لیے سوال میں مذکورجملہ ’’پہلے پیٹ پوجا پھر کام دوجا‘‘ کہنے والے کی مراد جان کر اس کے اس قول کے بارے میں کوئی حکم لگایا جا سکے گا۔
والله أعلم بالصواب.
محدث فتوی کمیٹی
01. فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
02. فضیلۃ الشیخ عبد الخالق حفظہ اللہ
03. فضیلۃ الشیخ اسحاق زاہد حفظہ اللہ