الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
باپ کی وفات کے بعد اس کی تمام جائیداد ( نقدی یا بینک میں پڑی ہوئی رقم، زمین، گھر، پلاٹ، کمپنی وغیرہ) اس کے وارثین کی ملکیت ہو جاتی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا (النساء: 7)
مردوں کے لیے اس میں سے ایک حصہ ہے جو والدین اور قریبی رشتے دار چھوڑ جائیں اور عورتوں کے لیے بھی اس میں سے ایک حصہ ہے جو والدین اور قریبی رشتے دار چھوڑ جائیں، اس میں سے جو اس (مال) سے تھوڑا ہو یا بہت، اس حال میں کہ مقرر کیا ہوا حصہ ہے۔
مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں ایک اصولی حکم دیا گیا ہے کہ ماں باپ اور رشتے داروں کی چھوڑی ہو ئی جائیداد میں ، چاہے وہ کسی بھی نوعیت کی ہو، جس طرح مردوں کا حق ہے اسی طرح عورتوں اور بچوں کا بھی حق ہے، حتی کہ جو بچہ پیٹ میں ہے وہ بھی وراثت میں حصے دار ہو گا بشرطیکہ زندہ پیدا ہو۔
لہذا زید کی والدہ کا اپنے باپ کی جائیداد سے حصہ بنتا تھا ۔ اگر زید کی والدہ نے اپنی زندگی میں بخوشی اپنا حصہ اپنے بھائیوں کو دے دیا تھا تو ٹھیک ہے ورنہ زید کے ماموؤں پر ضروری ہے کہ وہ اپنی بہن کا حصہ اس کے وارثین کو دیں۔
زید کا والد معاف نہیں کر سکتا کیونکہ وارث زید کا والد نہیں بلکہ والدہ ہے۔ اگر والدہ نے اپنی زندگی میں معاف نہیں کیا تو وراثت اس کا حق ہے جو اسے یا اس کے وارثوں کو ہر صورت دینا ضروری ہے ۔
والله أعلم بالصواب
محدث فتوى کمیٹی
01- فضیلۃالشیخ جاويد اقبال سيالكوٹی حفظہ اللہ
02- فضیلۃالشیخ عبد الخالق حفظہ اللہ