سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

بهانجے کا ماموں کے گھررہنا

  • 4936
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 50

سوال

کیا بھانجے کا اپنے ماموں کے گھر میں رہنا درست ہے، جبکہ ماموں کی بیوی بھی ساتھ میں رہتی ہو،شرعی حکم کیا ہے؟

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگردرج ذیل شرعی احکامات کا خیال رکھا جائے توبھانجا اپنے ماموں کے گھررہ سکتا ہے:

01. ممانی پر واجب ہے کہ وہ اپنے خاوند کے بھانجے سے پردہ کرے، کیونکہ وہ غیر محرم ہے۔

ارشادباری تعالی ہے:

وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (النور: 31)

اورمومن عورتوں سے کہہ دے اپنی کچھ نگاہیں نیچی رکھیں اوراپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اوراپنی زینت ظاہرنہ کریں مگرجو اس میں سے ظاہر ہوجائےاوراپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں اوراپنی زینت ظاہرنہ کریں مگر اپنے خاوندوں کے لیے، یااپنے باپوں، یا اپنے خاوندوں کے باپوں، یا اپنے بیٹوں، یا اپنے خاوندوں کے بیٹوں، یا اپنے بھائیوں، یا اپنے بھتیجوں، یا اپنے بھانجوں، یا اپنی عورتوں (کے لیے)، يا (ان کے لیے) جن کے مالک ان کے دائیں ہاتھ بنے ہیں، یا تابع رہنے والے مردوں کے لیے جو شہوت والے نہیں، یا ان لڑکوں کے لیے جو عورتوں کی پردے کی باتوں سے واقف نہیں ہوئےاور اپنے پاؤں (زمین پر) نہ ماریں، تا کہ ان کی وہ زینت معلوم ہو جو وہ چھپاتی ہیں اور تم سب اللہ کی طرف توبہ کرو اے مومنو! تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ۔‘‘

01. بھانجا اورممانی کبھی بھی گھر میں اکیلے نہ ہوں، بلکہ تیسرا کوئی محرم رشتے دار موجود ہونا ضروری ہے، کیونکہ غیر محرم کے ساتھ خلوت حرام ہے۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لاَ يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ (صحیح البخاری، النکاح: 5233، صحيح مسلم، الحج: 1341)

 کوئی مرد کسی اجنبی عورت سے تنہائی میں نہ ملے مگر جب قریبی رشتہ دار موجود ہوں۔

01. گپ شپ لگانا یا ایسی گفتگو کرنا جس سے فتنے کا اندیشہ ہو منع ہے،كيونكہ اللہ تعالی نے عورت کو گفتکو میں نرمی کا رویہ رکھنے سے منع کیا ہے۔

ارشادباری تعالی ہے:

يَانِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفًا (الأحزاب: 32)

اے نبی کی بیویو! تم عورتوں میں سے کسی ایک جیسی نہیں ہو،اگر تقوی اختیار کرو تو بات کرنے میں نرمی نہ کروکہ جس کے دل میں بیماری ہے طمع کر بیٹھے اور وہ بات کہو جو اچھی ہو۔‘‘

اور فرمایا:

وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ (الأحزاب: 53)

اور جب تم ان سے کوئی سامان مانگوتوان سے پردے کے پیچھے سے مانگو،یہ تمھارے دلوں اوران کے دلوں کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔

والله أعلم بالصواب.

محدث فتوی کمیٹی

01. فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

02. فضیلۃ الشیخ عبد الخالق حفظہ اللہ

03. فضیلۃ الشیخ اسحاق زاہد حفظہ اللہ

ماخذ:محدث فتویٰ کمیٹی