الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مغیث کا لفظ عربی گرائمر کے لحاظ سے اسم فاعل کا صیغہ ہے جس کا معنی ہے مشکل کے وقت مدد کرنے والا۔
المغیث کو ابن تیمیہ ، ابن القیم رحمہما اللہ وغیرہ نے اللہ تعالی کے ناموں میں شمار کیا ہے ۔ (دیکھیں: مجموع الفتاوی از ابن تیمیہ ، جلدنمبر 1، صفحہ نمبر 110 ، الكافية الشافية از ابن القيم صفحہ نمبر208)
ارشاد باری تعالی ہے:
إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُرْدِفِينَ (الأنفال: 9)
جب تم اپنے رب سے مدد مانگ رہے تھے تو اس نے تمھاری دعا قبول کر لی کہ میں ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ تمھاری مدد کرنے والا ہوں، جو ایک دوسرے کے پیچھے آنے والے ہیں۔
اس لیے عبد المغیث نام رکھنا جائز ہے۔
محمد مغیث بھی نام رکھا جا سکتا ہے کیونکہ یہ نام اللہ تعالی کے ساتھ خاص نہیں ہے ۔ ایک انسان بھی دوسرے انسان کے مشکل وقت میں مدد کر سکتا ہے جب وہ مدد کرنے پر قادر ہو اور زندہ ہو۔
مغیث الرحمن (رحمن کی مدد کرنے والا )نام رکھنا مناسب نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالی کو کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔
ارشادباری تعالی ہے:
يَاأَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ (فاطر: 15)
اے لوگو! تم ہی اللہ کی طرف محتاج ہو اور اللہ ہی سب سے بے پرواہ ، تمام تعریفوں کے لائق ہے۔
والله أعلم بالصواب
محدث فتوى کمیٹی
01. فضیلۃالشیخ جاويد اقبال سيالكوٹی حفظہ اللہ
02. فضیلۃالشیخ عبد الخالق حفظہ اللہ