سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

نماز میں والدین کی آواز کا جواب دینا

  • 4921
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 222

سوال

میں نماز پڑھ رہا ہوتا ہوں ، میری ماں آواز دیتی ہے تو میں نماز میں ہی جواب دیتے ہوئے کہتا ہوں کہ ’’میں حاضر ہوں‘‘، کیا میرا ایسا کرنا درست ہے؟

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگرانسان فرض نمازپڑھ رہا ہو اوروالدین میں سے کوئی ایک اسے آوازدے تو نمازتوڑنا جائز نہیں ہے ، لیکن  کسی نہ کسی طرح ان کو خبر کر دے کہ وہ نماز پڑھ رہا ہے، جیسے سبحان اللہ کہہ دے یا تھوڑی بلند آواز میں قراءت کرنا شروع کر دے۔

 اس حالت میں اس کے لیے جائز ہے کہ وہ نماز تھوڑی جلدی ادا کرلے اور نماز مکمل کرنے کے بعد والدین کو اپنا عذر بیان کر دے کہ وہ نماز پڑھ رہا تھا۔ کسی عذر کی  بنا پر  نماز میں تھوڑی جلدی کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےثابت ہے۔

سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إِنِّي لَأَقُومُ فِي الصَّلَاةِ أُرِيدُ أَنْ أُطَوِّلَ فِيهَا فَأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ فَأَتَجَوَّزُ فِي صَلَاتِي كَرَاهِيَةَ أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمِّهِ(صحیح البخاری، الأذان: 707)

میں نمازشروع کرتا ہوں اسے طول دینا چاہتا ہوں، پھرمیں بچے کے رونے کی آوازسنتا ہوں تو نماز کو مختصرکر دیتا ہوں۔ اس کوناپسند کرتے ہوئے کہ اس (بچے) کی ماں کو تکلیف میں مبتلا کروں۔ 

 

اگرانسان نفلی نمازپڑھ رہا ہواوروالدین میں سے کوئی ایک آوازدے تو اگر اسے علم ہوکہ فوری جواب نہ دینے سے وہ غصہ نہیں کریں گے تو نماز مکمل کرنے کے بعد ان کی بات کا جواب دے اوراگراسے پتہ ہوکہ فوری جواب نہ دینا انہیں ناپسند ہے تو انہیں فوری جواب دے اور نمازتوڑ دے۔ توڑی ہوئی نماز کو بعد میں ادا کرنا افضل ہے۔

 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک عورت نے اپنے بیٹے کو آوازدی جبکہ وہ اپنے عبادت خانے میں (مصروف عبادت) تھا، اس نے کہا: اے جریج! جریج نے (دل میں) کہا: اے اللہ! ایک طرف میری والدہ ہے، دوسری طرف میری نماز ہے۔ وہ پھر بولی: اے جریج! جریج گویا ہوا: یا اللہ! میری والدہ اور میری نماز، میں کسے اختیار کروں۔ اس عورت نے تیسری مرتبہ پکارا: اے جریج! اس نے پھر وہی کہا: یا اللہ! ادھر میری والدہ ہے ادھر میری نماز ہے۔ (بہرحال اس نے نماز کو نہ چھوڑا تو) ماں نے بددعا کی: اے اللہ! جریج کو موت نہ آئے جب تک وہ بدمعاش عورتوں کا منہ نہ دیکھ لے، چنانچہ اس کےعبادت خانے کے پاس ایک بکریاں چرانے والی عورت ٹھہرا کرتی تھی۔ اس نے ایک بچے کو جنم دیا تو اس سے کہا گیا: یہ بچہ کس شخص کا ہے؟ وہ کہنے لگی: (نومولود) جریج سے ہے۔ وہ یہ الزام سن کراپنے عبادت خانے سے نیچے اترا اورکہنے لگا: وہ عورت کہاں ہے جو دعویٰ کرتی ہے کہ یہ بچہ مجھ سے ہے؟ جریج نے بچے کو مخاطب کر کے کہا:اے شیر خوار! تیرا باپ کون ہے؟ اس نے کہا: میرا باپ بکریاں چرانے والا ایک گڈریا ہے۔‘‘  ( صحیح البخاری، العمل فی الصلاۃ: 1206،  صحيح مسلم، البر والصلة والآداب: 2550)

 

والله أعلم بالصواب.

محدث فتوی کمیٹی

01. فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

02. فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

03. فضیلۃ الشیخ عبد الخالق حفظہ اللہ

04. فضیلۃ الشیخ اسحاق زاہد حفظہ اللہ

تبصرے