الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے ہرحق والے کے حق کا ذکرکردیا ہے، ہرانسان کے ورثاء کا تفصیل کے ساتھ ذکرکردیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
ﱡلِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا ﱠ. (النساء: 7).
مردوں کے لیے اس میں سے ایک حصہ ہے جو والدین اورقریبی رشتے دارچھوڑ جائیں اورعورتوں کے لیے بھی اس میں سے ایک حصہ ہے جو والدین اورقریبی رشتے دار چھوڑ جائیں، اس میں سے جو اس (مال) سے تھوڑا ہو یا بہت، اس حال میں کہ مقررکیا ہوا حصہ ہے۔
اللہ تعالی نے قرآن وسنت میں جن ورثاء کا تذکرہ کیا ہےاس کے مطابق آپ اس بچے کے وارث نہیں بن سکتے جو آپ کی بیوی کے پہلے خاوند سے ہو، کیونکہ آپ کا اس سے کوئی نسبی تعلق نہیں ہے۔
وہ بچہ آپ کی ہونے والی اولاد کے لیے محرم ہوگا اور وہ اخیافی( ماں شریک) بھائی ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کے وارث بھی ہیں۔
ارشاد باری تعالی ہے:
وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ فَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ (النساء: 12)
اوراگر کوئی مرد، جس کا ورثہ لیا جا رہا ہے، ایسا ہے جس کا نہ باپ ہو نہ اولاد، یا ایسی عورت ہےاوراس کا ایک بھائی یا بہن ہو تو ان میں سے ہر ایک کے لیے چھٹا حصہ ہے، پھر اگر وہ اس سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی میں حصے دار ہیں۔
والله أعلم بالصواب.
محدث فتوی کمیٹی
01. فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
02. فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
03. فضیلۃ الشیخ عبد الخالق حفظہ اللہ
04. فضیلۃ الشیخ اسحاق زاہد حفظہ اللہ