سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

طلاق نامے پر صرف خاوند کے دستخط ہوں تو کیا طلاق ہو جائے گی

  • 4772
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 193

سوال

اگر بیوی کو طلاق ثلاثہ لکھ کر بھیج دی جاے لیکن طلاق نامے پر صرف لڑکے کے دستخط ہوں (بیوی کے دستخط نہ ہوں)، وہ صرف طلاق وصول کرے تو کیا اسلام کی رو سے طلاق ہو جاتی ہے؟

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اسلام  نے طلاق دینے کا اختیار خاوند کو دیا ہے، بعض حالتوں میں عدالت کے ذریعے بھی علیحدگی ہو سکتی ہے۔
اگر خاوند نے اپنی مرضی سے طلاق نامہ لکھ کر دستخط کر کے اپنی بیوی کو بھیج دیا ہے تو طلاق واقع ہو جاتی ہے، بیوی کے دستخط سے طلاق کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ 
ارشاد باری تعالی ہے:
الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ (البقرة: 229)
(یہ) طلاق (رجعی) دوبار ہے، پھر یا تو اچھے طریقے سے رکھ لینا ہے، یا نیکی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔
مزید فرمایا:
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ (النساء: 34)
مرد عورتوں پر نگران ہیں، اس وجہ سے کہ اللہ تعالی نے ان کے بعض کو بعض پر فضیلت عطا کی ہے۔
جب مرد عورتوں پر نگران ہیں تو شریعت نے طلاق کا اختیار بھی مرد کو ہی دیا ہے۔
لیکن یاد رہے! قرآن وسنت کی روشنی میں اکٹھی تین طلاقیں دینا حرام ہے، ایسا کرنے والے کو اللہ تعالی سے اپنے گناہ کی معافی مانگنا چاہیے۔
 لیکن اگر کوئی انسان اکٹھی تین طلاقیں دے دے تو وہ ایک ہی شمار ہو گی، اور خاوند کو عدت کے دوران رجوع کا حق حاصل ہو گا کیوں کہ نکاح کے مضبوط بندھن کو شریعت نے ایک لخت ختم نہیں کیا بلکہ تین طلاق کا سلسلہ اور پھر ان میں سے پہلی دو کے بعد سوچنے اور رجوع کرنے کا موقع دیا ہے تاکہ گھر ٹوٹنے سے بچ جائے۔
عدت گزرنے کے بعد نئے سرے سے نکاح ہو سکتا ہے، جس میں ولی، گواہ، حق مہر، عورت کی رضامندی ضروری ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَة(صحيح مسلم، الطلاق: 1472)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے پہلے دو سال تک (اکٹھی) تین طلاقیں ایک طلاق ہی شمار ہوتی تھیں۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے طلاق کے ناجائز طریقے کی روک تھام کے لیے ایک سیاسی فیصلہ کیا تھا کہ جس  نے اکٹھی تین طلاقیں دے دیں ہم اسے نافذ کر دیں گے، یہ وقتی سیاسی فیصلہ تھا، شرعی نہیں تھا۔ (حاشية الطحاوي على الدر المختار: 2/105)


والله أعلم بالصواب

محدث فتویٰ کمیٹی

01. فضیلۃ الشیخ ابومحمد عبدالستار حماد حفظہ اللہ
02. فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
03. فضیلۃ الشیخ عبدالخالق حفظہ اللہ

تبصرے