سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

ایسی مسجد جو سود کے پیسے سے بنائی گئی ہو اس میں نماز درست ہے ؟

  • 4736
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-20
  • مشاہدات : 225

سوال

مسجد کا متولی اگر خیانت کا مرتکب ہو تو اس کے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟ ایسی مسجد کا کیا حکم ہے جس پر سود کا پیسہ استعمال کیا گیا ہو، یا اس کی انتظامیہ نے سود کھایا ہو، کیا ایسی مسجد میں نماز درست ہے؟ برائے مہربانی قرآن و سنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔ اس شخص کے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے جس کو کئی بار کہا جا چکا ہے کہ وہ مسجد کا حساب و کتاب بتائے لیکن وہ چھپاتا ہے تا کہ انتظامیہ اور اس کا ساتھ دینے والوں کی خیانت واضح نہ ہو؟

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سودی کارو بار قطعی طور پر جائز نہیں ہے بلکہ کبیرہ گناہ ہے۔ بہت سی قرآنی آیات اور احادیث میں سود لینے سے منع کیا گیا ہے بلکہ سود لینے کو اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ اعلان جنگ قرار دیا گیا ہے۔
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
ياأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُؤُوسُ أَمْوَالِكُمْ لا تَظْلِمُونَ وَلا تُظْلَمُونَ (البقرة: 278-279)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور سود میں سے جو باقی ہے چھوڑ دو، اگر تم مؤمن ہو۔ پھر اگر تم  نے یہ نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بڑی جنگ کے اعلان سے آگاہ ہو جاؤ، اور اگر توبہ کر لو تو تمہارے لیے تمہارے اصل مال ہیں، نہ تم ظلم کرو گے اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔
سیدنا جابر رضى اللہ عنہ بیان کرتےہیں کہ :
لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ وَقَالَ: هُمْ سَوَاءٌ (صحيح مسلم، المساقاة: 1598)
رسول كريم صلى اللہ علیہ وسلم  نے سود كھانے والے، سود كھلانے والے ، سود لكھنے والے، اور سود كے گواہ بننے والوں پر لعنت فرمائى ہے ، اور فرمایا: يہ سب (گناہ میں) برابر ہيں۔
اس لیے سود لینے والے پر واجب ہے کہ وہ  اپنے گناہ سے توبہ کرے، جو كچھ ہو چكا اس پر ندامت کا اظہار کرے، اور پختہ عزم كرے كہ آئندہ ایسے عظيم گناہ اور جرم كا ارتكاب نہيں كرے گا، جس سے قرآن و احادیث میں منع کیا گیا ہے۔
سود کی رقم کو انسان کے لیے خود استعمال کرنا یا کھانا جائز نہیں ہے بلکہ اسے مسلمانوں کی عمومی مصلحتوں میں خرچ کرنا واجب ہے۔ مسجد بنانے میں بھی تمام مسلمانوں کو فائدہ پہنچتا ہے اس لیے حرام کے  مال سے جان چھڑانے کے لیے اس کو مسجد بنانے میں خرچ کیا جا سکتا ہے، کیوں کہ حرام طریقے سے کمائے ہوئے مال کو ضائع کر دینے یا سمندر میں پھینک دینے سے بہتر ہے کہ اسے ایسی جگہ خرچ کر دیا جائے جس میں عام مسلمانوں کا فائدہ ہو۔
اس لیے ایسے مال کو مسکینوں، فقیروں میں بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے، اگر کوئی مقروض شخص اپنا قرض ادا نہیں کر سکتا اس کی معاونت بھی اس مال سے کی جا سکتی ہے، سڑکیں، ہسپتال وغیرہ  بھی بنائے جا سکتے ہیں، یتیموں اور بیواؤں پر بھی ایسا مال خرچ کیا جا سکتا ہے۔
امام نووى رحمہ اللہ نے امام غزالی کا قول نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا:
اگر انسان كے پاس حرام مال ہو اور وہ اس سے توبہ اور خود كو  برى کرنا چاہتا ہو، تو ديكھا جائے گا اگر وہ مال کسی آدمی کا ہے تو اسے اس آدمی یا اس کے کسی نائب تک پہنچانا واجب ہے، اگر وه فوت ہو چكا ہو تو اس كے ورثاء كے سپرد كر ديا جائے گا۔ اگر اس حرام مال كے مالك كا پتہ نہ چل رہا ہو ، اور مستقبل میں بھی مالک کا  علم ہونے کی امید نہ ہو تو اس  مال كو مسلمانوں كے عمومى فائدے اور مصلحت ميں خرچ كرنا چاہيے، مثلا پل، سرائے ، مسافر خانےاور مساجد وغيرہ جس ميں سب مسلمان شريك ہوتے ہيں، وگرنہ يہ مال فقراء و مساكين پر خرچ كر ديا جائے۔ (المجموع:  جلد نمبر 9، صفحہ نمبر 351)
لیکن یاد رہے!  کہ جب آپ اس مال سے مسجد بنائیں گے یا فقیروں، مسکینوں وغیرہ میں تقسیم کریں گے تو صدقے کی نیت نہیں کریں گے کیوں کہ اللہ تعالی حرام مال قبول نہیں کرتا۔
سیدنا  ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ اللهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا (صحيح مسلم، الزكاة: 1015) 
اے لوگو! بلاشبہ اللہ تعالی پاک ہے،  اور پاکیزہ مال ہی قبول کرتا ہے۔
لہذا آپ مال خرچ کرتے وقت یہ نیت کریں گے کہ آپ گناہ سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں اور  اپنے مال کو سود سے پاک کرنا چاہتے ہیں۔ 
سوال کے دوسرے حصے میں پوچھا گیا ہے کہ  مسجد  کے متولی سے بار بار کہا جا چکا ہے کہ وہ مسجد کا حساب و کتاب بتائے لیکن وہ چھپاتا ہے، اس بارے میں عرض ہے کہ ایک مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے بارے میں برا گمان رکھے، اس کی نگرانی کرتا رہے، ٹو میں لگا رہے کہ کہیں اس کی کوئی خامی نظر آئے تاکہ اسے بدنام کر سکے بلکہ ہر انسان کو اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینی چاہیے، انسان دوسرے کی جاسوسی کرنے کی بجائے خود کو اچھے اخلاق کا حامل بنائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے لوگوں کے عیب تلاش کرنے سے منع فرمایا ہے، جیسا کہ سيدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ منبر پر تشریف لائے ، بلند آواز سے پکارا اور فرمایا:
يا مَعْشَرَ مَنْ أَسْلَمَ بِلِسَانِهِ وَلَمْ يُفْضِ الْإِيمَانُ إِلَى قَلْبِهِ لَا تُؤْذُوا الْمُسْلِمِينَ وَلَا تُعَيِّرُوهُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا عَوْرَاتِهِمْ فَإِنَّهُ مَنْ تَتَبَّعَ عَوْرَةَ أَخِيهِ الْمُسْلِمِ تَتَبَّعَ اللَّهُ عَوْرَتَهُ وَمَنْ تَتَبَّعَ اللَّهُ عَوْرَتَهُ يَفْضَحْهُ وَلَوْ فِي جَوْفِ رَحْلِه (سنن ترمذي، البر والصلة: 2032) (صحيح)
اے وه جماعت جس  نے اپنی زبان سے اسلام  قبول کیا ہے لیکن ان کے دلوں تک ایمان نہیں پہنچا ہے! مسلمانوں کو تکلیف مت دو، ان کو عار مت دلاؤ اور ان کے عیب نہ تلاش کرو، اس لیے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیب ڈھونڈتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے عیب ڈھونڈتا ہے، اور اللہ تعالیٰ جس کے عیب ڈھونڈتا ہے ، اسے رسوا وذلیل کردیتا ہے، اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندرہو۔
لیکن اگر آپ کے پاس ٹھوس ثبوت موجود ہیں، دلائل اور شواہد کی بنیاد پر آپ کسی مسلمان کے بارے میں برا گمان رکھتے ہیں تو یہ جائز ہے، اور وہ شخص خیانت کا مرتکب ہو رہا ہے جو کہ کبیرہ گناہ ہے، سیدنا ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَا تَزُولُ قَدَمَا عَبْدٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ عُمُرِهِ فِيمَا أَفْنَاهُ وَعَنْ عِلْمِهِ فِيمَ فَعَلَ وَعَنْ مَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ وَفِيمَ أَنْفَقَهُ وَعَنْ جِسْمِهِ فِيمَ أَبْلَاهُ (سنن ترمذي، صفة القيامة والرقائق والورع: 2417) (صحيح)
قیامت کے دن کوئی بھی انسان اپنے پاؤں اس وقت تک ہلا نہیں سکے گا جب تک کہ وہ ان سوالوں کا جواب نہ دے دے انسان سے اس کی عمر کے بارے میں سوال کیا جائے گا کہ اسے کن کاموں میں ختم کیا، اور اس کے علم کے بارے میں کہ اس پر کتنا عمل کیا اور اس کے مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا، اور اس کے جسم کے بارے میں کہ اسے کہاں کھپایا۔
جو آدمی مسجد کے مال میں خیانت کرتا ہے اس کا گناہ عام لوگوں کے مال میں خیانت کرنے سے بھی بڑا ہے، اسے روز قیامت اس کا پورا پورا حساب دینا ہو گا۔
اس آدمی کو فوراً اس عہدے سے ہٹا دیا جانا چاہیے، اور کسی امانت دار شخص کو مسجد کے معاملات کی ذمے داری سونپی جانی چاہیے۔
لیکن یار رہے! اگر اس کو اس ذمے داری سے ہٹانے میں کسی بڑے فتنے کا خدشہ ہو تو اسے اس ذمے داری پر برقرار رکھا جائے گا کیوں کہ یہ عقل مندی نہیں ہے کہ چھوٹا فساد ختم کر کے انسان بڑے فساد کو اپنے اوپر مسلط کر لے۔

والله أعلم بالصواب

محدث فتویٰ کمیٹی

01. فضیلۃ الشیخ ابومحمد عبدالستار حماد حفظہ اللہ

تبصرے