الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بہت سی احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پردرود بھیجنے کا حکم دیا گیا ہے اوراس کے فضائل بیان کیے گئے ہیں ، جمعہ کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرت کے ساتھ درود پڑھنے کا حکم دیا ہے۔
سیدنا اوس بن اوس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَّامِكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ, فِيهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيهِ قُبِضَ، وَفِيهِ النَّفْخَةُ، وَفِيهِ الصَّعْقَةُ، فَأَكْثِرُوا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ فِيهِ, فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ مَعْرُوضَةٌ عَلَيَّ قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَكَيْفَ تُعْرَضُ صَلَاتُنَا عَلَيْكَ وَقَدْ أَرِمْتَ -يَقُولُونَ: بَلِيتَ؟!- فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ) سنن أبي داود، أَبْوَابِ الْجُمُعَةِ: 1047، سنن نسائي، الجمعة: 1374) (صحيح)
تمہارے افضل ایام میں سے جمعے کا دن ہے۔ اس میں آدم پیدا کیے گئے، اسی میں ان کی روح قبض کی گئی، اسی میں (نفخة (دوسری دفعہ صورپھونکنا) ہے اور اسی میں (صعقة) ہے (پہلی دفعہ صور پھونکنا، جس سے تمام بنی آدم ہلاک ہوجائیں گے) سو اس دن میں مجھ پر زیادہ درود پڑھا کرو کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ صحابہ نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! ہمارا درود آپ پرکیوں کر پیش کیا جائے گا حالانکہ آپ بوسیدہ ہوچکے ہوں گے۔ (یعنی آپ کا جسم) تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ عزوجل نے زمین پرانبیاء کے جسم حرام کردیے ہیں۔
سيدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبیﷺ کوفرماتے ہوئے سنا:
فَإِنَّهُ مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً صَلَّى الله عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا (صحيح مسلم، الصلاة: 384)
جو مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰٰ اس کے بدلے میں اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔
1. جمعہ کے دن 80 مرتبہ درود پڑھنے کی فضیلت کے بارے میں ایک حدیث ابن شاہین رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’الترغیب فی فضائل الاعمال (صفحہ نمبر 14) میں بیان کی ہے لیکن وہ حدیث ضعیف ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند کے ساتھ ثابت نہیں ہے ۔ امام البانی رحمہ اللہ اوردیگر کبارمحدثین نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے (تفصیل کے لیےدیکھیں: السلسلة الضعيفة از امام الباني: 3804)
والله أعلم بالصواب.
1- فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی صاحب حفظہ اللہ
2- فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال صاحب حفظہ اللہ