سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

  • 47
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-23
  • مشاہدات : 530

سوال

وزیرستان میں جاری جنگ کی شرعی حثییت کیا ھے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ہم وزیرستان کے حوالہ سے کچھ تاریخی حقائق کا تذکرہ کرتے ہیں جن سے اس جنگ کی شرعی حیثیت کا تعین کرنے میں مدد ملے گی۔ وزیرستان پاکستان کے شمال مغرب میں ایک پہاڑی علاقہ ہے کہ جس کی سرحد افغانستان سے بھی ملتی ہے ۔وزیرستان جغرافیائی اعتبار سے دو حصوں'شمالی وزیرستان'اور 'جنوبی وزیرستان' میں تقسیم ہے۔١٩٩٨ء کے اندازے کے مطابق شمالی وزیرستان کی آبادی تقریباًتین لاکھ اکسٹھ ہزار اور جنوبی وزیرستان کی آبادی چار لاکھ انتیس ہزار تھی۔شمالی وزیرستان کا صدر مقام' میران شاہ 'ہے جبکہ جنوبی وزیرستان کا ہیڈ کوارٹر 'وانا' ہے۔ وزیرستان کے مقامی لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد جہاد افغانستان اور طالبان تحریک میں بھی شامل رہی تھی ۔نومبر ٢٠٠١ء میںافغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد بہت سے غیر ملکی اورمقامی مجاہدین نے وزیرستان کا رخ کیااور یہاں پناہ لی۔امریکہ نے ان مجاہدین کے حوالے سے حکومت ِ پاکستان پر دباؤڈالا۔ حکومت پاکستان نے جولائی ٢٠٠٢ء میں مقامی قبائلیوں کی رضامندی سے علاقے کی ترقی کے بہانے 'وادی تیرہ 'اور 'خیبر ایجنسی' میں اپنی فوجیں اتاریں۔ اور کچھ ہی عرصہ بعدحکومت نے اچانک ہی جنوبی وزیرستان پر ہلا بول دیا۔مقامی لوگوںنے حکومت پاکستان کے اس اقدام کو اپنی آزادی کے منافی سمجھا اور پاکستانی افواج و مقامی قبائلیوں کے درمیان جھڑپوں کا آغاز ہو گیا۔مارچ ٢٠٠٤ء میں 'وانا' کے قریب 'أعظم وارسک' کے مقام پر حکومت اور قبائلیوں کے مابین ایک بڑی جھڑپ ہوئی۔ اپریل ٢٠٠٤ء میںپے در پے ناکامیوں کے بعدحکومت پاکستان نے 'نیک محمد' کی قیادت میں لڑنے والے قبائلیوں سے امن معاہدہ کر لیا۔جون ٢٠٠٤ء میں 'نیک محمد' کو ایک امریکی میزائل کے ذریعے شہید کر دیاگیا۔اکتوبر ٢٠٠٤ء میں جنوبی وزیرستان کے ایک بڑے رہائشی محسودقبیلے کے جنگجو عبد اللہ محسود مقامی قبائلیوں کے رہنما کے طور پر سامنے آئے تھے ۔یہ حضرت تقریباً ڈیڑھ سال تک گوانتاناموبے جیل میں قید رہے تھے بعد ازاں امریکی حکام نے ا ن کو رہا کر دیا تھااور ان کی رہائی کی وجہ آج تک ایک سوالیہ نشان ہے۔مارچ ٢٠٠٣ء میں یہ رہا کیے گئے تھے۔درمیان میں ایک ڈیڑھ سال چھپے رہے اور اکتوبر ٢٠٠٤ء کے قریب ایک دم سے میڈیا میں ان کے بیانات آنے شروع ہو گئے ۔عبد اللہ محسود کو میڈیا میں آنے کا بہت شوق تھا یہاں تک کہ ان کانام ہی میڈیا فرینڈلی کمانڈر کے طور پر معروف ہو گیا تھا'یہ حضرت خود سے ٹی وی چینلز کو فون کر کے اپنے انٹر ویو ریکارڈ کرواتے تھے۔دو چینی انجینیئرز کو اغواء کرنے کی وجہ سے ٢٠٠٧ء میں ان کو حکومت پاکستان کی طرف سے شہید کر دیاگیا۔ عبد اللہ محسود کے علاوہ ایک اور جنگجو بیت اللہ محسود بھی مقامی طالبان کے رہنما کے طور پر سامنے آئے۔بیت اللہ محسود ایک سنجیدہ مزاج اور فہم و فراست رکھنے والے کمانڈر ہیں۔فروری ٢٠٠٥ء میں بیت اللہ محسود کی قیادت میں قبائلیوں کا حکومت پاکستان سے معاہدہ ہوا۔ بیت اللہ محسودنے عبد اللہ محسود کو بھی اس معاہدے میں شریک کرنے کی درخواست کی لیکن حکومت پاکستان نے چینی انجینیئرز کے اغواء کے معاملے کی وجہ سے عبد اللہ کو اس معاہدے میں شامل کرنے سے انکار کر دیا۔ جولائی ٢٠٠٧ء میں حکومت پاکستان نے لال مسجد پر حملہ کر تے ہوئے بیسیوں طلباء اورسینکڑوں بچیوں کو شہید کر دیا' جس کے رد عمل میں بیت اللہ محسود نے افواج پاکستان پر خود کش حملوں کی دھمکیاں دیں اور معاہدہ توڑنے کا اعلان کیا۔ دسمبر ٢٠٠٧ء میں سات قبائلی ایجنسیوں شمالی وزیرستان ' جنوبی وزیرستان' کرم ایجنسی' باجوڑ ایجنسی' خیبر ایجنسی' أورکزئی ایجنسی اور مہمند ایجنسی کے علاوہ مالاکنڈ ڈویزن' سوات اور درہ آدم خیل سے تعلق رکھنے والے بیس کے قریب طالبان رہنماؤں کا اجلاس ہوااور بیت اللہ محسود کی قیادت میں 'تحریک طالبان پاکستان ' کا قیام عمل میں آیا۔چالیس رکنی شوری بھی مقرر کی گئی اور مولوی عمر کو تحریک کا ترجمان بنایا گیا۔ جنوری ٢٠٠٨ء میں حکومت پاکستان نے دوبارہ محسود قبائل کے خلاف آپریشن شروع کر دیاجس کی وجہ سے ہزاروں افراد نے وزیرستان علاقے سے نقل مکانی شروع کر دی۔٦فروری ٢٠٠٨ء کو 'تحریک طالبان پاکستان' نے سوات سے وزیرستان تک افواج ِ پاکستان کے خلاف کاروائیاں بند کرنے کا اعلان کیا۔ جنوبی وزیرستان کے مقامی جنگجو'نیک محمد' ٢٠٠٣ء اور ٢٠٠٤ء میں سینکڑوں غیر ملکیوں کو 'وانا' لے کر آئے تھے ۔یہ غیر ملکی یہاں آ کر آباد ہو گئے تھے اور قبائلیوں نے ان پر کوئی اعتراض نہ کیا۔٢٠٠٤ء میں 'نیک محمد' کی قیادت میں قبائلیوں نے افواج پاکستان کوبھاری نقصان پہنچایا جس کے نتیجے میں امن معاہدہ ہوا اور بعد ازاں نیک محمد ایک میزائل حملے میں شہید ہو گئے۔ان کی شہادت کے بعد ان کے کمانڈروں نے مختلف دھڑے بنا لیے اور اپنی اپنی اجارہ داریاں قائم کر لیں۔طالبان کی اعلی قیادت نے جنوبی وزیرستان میں 'ملا نذیر' کو طالبان کا لیڈر مقرر کردیا۔ جنوبی وزیرستان میں اسی عرصے میںمقامی طالبان کو غیر ملکی ازبک مجاہدین کے رویوں سے کچھ شکایات پیدا ہوئیں اور بہت سے مقامی سرداروں کے قتل کا الزام بھی ازبکوں پر لگایا جاتا رہا۔ازبک کسی بھی مقامی سردار پر جاسوسی کا الزام لگا کر اس کو قتل کر دیتے تھے۔انہوں نے زمین میں گڑھے کھود کر اپنی جیلیںبنائی ہو ئی تھیں جہاں وہ اپنے مخالفین کو قید رکھتے تھے۔صورت حال اس وقت زیادہ خراب ہوئی جب القاعدہ سے متعلق ایک عرب مجاہد سیف العادل کو ازبکوں نے شہید کر دیا۔مقامی طالبان ملا نذیر کی قیادت میں ازبکوں کے خلاف اکھٹے ہو گئے اور مقامی و غیر ملکی مجاہدین میں آپس کی لڑائی شروع ہوگئی۔ ازبک مجاہدین تین حصوں میں تقسیم ہوگئے۔ ان کا ایک حصہ تومقامی طالبان سے مل گیا جب ایک حصہ میر علی کی قیادت میں شمالی وزیرستان چلا گیا اور تیسرا حصہ قاری طاہر یلداشیو کی قیادت میں مقامی طالبان سے جہاد کرتا رہا۔اس جہاد کے نتیجے سینکڑوں مجاہدین شہید ہوئے اوربالآخر مقامی طالبان نے ازبک مجاہدین کا کنٹرول علاقے سے ختم کر دیا۔ شمالی وزیرستان کی طرف پیش قدمی افواج پاکستان کی طرف سے ٢٠٠٢ء میں ہوئی تھی۔٢٠٠٤ء کے شروع سے ہی مقامی طالبان اور سیکورٹی فورسز کے مابین گاہے بگاہے جھڑپیںہوتی رہتی تھیں۔حکومت پاکستان کا یہ دعوی تھا کہ اس علاقے میں وہ غیر ملکی اور القاعدہ کے مجاہدین موجود ہیںجو حکومت پاکستان اور امریکہ کو مطلوب ہیں۔شمالی وزیرستان کی صورت حال اس وقت زیادہ خراب ہو گئی جب مارچ ٢٠٠٦ء میں پاکستانی سیکورٹی فورسز نے شمالی وزیرستان کے صدر مقام' میران شاہ' پر حملہ کر دیا اور اس حملے میں فضائیہ کا بھرپور استعمال کیا گیا۔فضائی حملوں کے نتیجے میں شہر تباہ ہو کر رہ گیا اور تقریباً تمام آبادی پشاور' ڈیرہ اسماعیل خان اور ضلع ٹانک کی طرف ہجرت کر گئی۔اڑھائی برس کی اس باہمی جنگ کے بعد ٤٥ قبائل کے گرینڈ جرگہ اور حکومت کے مابین امن معاہدہ ہو گیا۔یہ معاہدہ ٢٠جولائی ٢٠٠٦ء کو ہوا۔ وزیرستان کی جنگ ہمارے نزدیک دفاعی جنگ تھی جو کہ حکومت پاکستان نے قبائلیوں پر مسلط کی تھی۔ واللہ اعلم بالصواب

تبصرے