سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

اگر انسان قسم کھالے کہ جب بھی وہ نکاح کرے تو اس کی بیوی کو طلاق

  • 4688
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-23
  • مشاہدات : 85

سوال

میں نے قسم کھائی کہ اگر یہ کام کروں تو جب جب نکاح کروں تب تب میری بیوی کو طلاق، اور مجھ سے قسم ٹوٹ گئی، اب نکاح کی کیا صورت ہو گی؟ میں بہت پریشان ہوں گھر والے شادی کرنا چاہتے ہیں، لہذا میری رہنمائی فرمائیں کہ میرے ذمہ سے یہ قسم کیسے ختم ہو گی تا کہ میں نکاح کر سکوں؟

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

انسان اس عورت کو طلاق دے سکتا ہے جو اس کے نکاح میں ہو، اجنبی عورت کو دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا (الأحزاب: 49)

اے لوگو جوایمان لائے ہو! جب تم مؤمن عورتوں سے نکاح کرو، پھرانہیں طلاق دے دو، اس سے پہلے کہ انھیں ہاتھ لگاؤ تو تمھارے لیے ان پر کوئی عدت نہیں، جسے تم شمار کرو، سو انھیں سامان دو اورانھیں چھوڑ دو، اچھے طریقے سے چھوڑنا۔

مند رجہ بالا آیت مبارکہ میں الله تعالیٰ نےطلاق سے پہلے نکاح كا ذكر كيا  ہے،  اس لیے طلاق دینے کے لیے عورت کا نکاح میں ہونا ضروری ہے۔

سيدنا مسور بن مخرمہ  رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ  نبی ﷺ نے فرمایا:

لا طَلَاقَ قَبْلَ نِكَاحٍ، وَلَا عِتْقَ قَبْلَ مِلْكٍ(سنن ابن ماجه، الطلاق:2048) (صحيح)

نکاح سے پہلے طلاق نہیں اورمالک بننے سے پہلےغلام کا آزاد کرنا (درست) نہیں۔

1. مندرجہ بالا آیت مبارکہ اور حدیث رسول سے واضح ہوتا ہے کہ نکاح کرنے سے پہلے طلاق واقع نہیں ہوسکتی، اس لیے آپ جب نکاح کریں گے تو آپ کی بیوی کو طلاق واقع نہیں ہوگی۔

2. آپ کی قسم ٹوٹ چکی ہے تو قسم کا کفارہ ادا کردیں۔

قسم کے کفارے کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُمُ الْأَيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ  (المائدة: 89)

اللہ تم سے تمھاری قسموں میں لغو پرمؤاخذہ نہیں کرتا اور لیکن تم سے اس پر مؤاخذہ کرتا ہے جو تم نے پختہ ارادے سے قسمیں کھائیں۔ تو اس کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے، درمیانے درجے کا، جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو، یا انھیں کپڑے پہنانا، یا ایک گردن آزاد کرنا، پھر جو نہ پائے تو تین دن کے روزے رکھنا ہے۔ یہ تمھاری قسموں کا کفارہ ہے، جب تم قسم کھا لو اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو۔ اسی طرح اللہ تمھارے لیے اپنی آیات کھول کر بیان کرتا ہے، تاکہ تم شکر کرو‘‘۔

والله أعلم بالصواب.

محدث فتوى کمیٹی

01- فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

02- فضیلۃالشیخ جاويد اقبال سيالكوٹی حفظہ اللہ

03- فضیلۃالشیخ عبد الحليم بلال حفظہ الله

تبصرے