الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
امتحانات میں نقل کرنا یا کسی دوسرے کو نقل کرانا شرعاً نا جائز ہے اورحرام ہے، یہ کئی گناہوں کا مجموعہ ہے:
اس میں دھوکا دینا پایا جاتا ہے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ غَشَّ فَلَيْسَ مِنِّي(صحيح مسلم، الإيمان: 102)
جس نے دھوکا کیا، وہ مجھ سے نہیں۔
نقل کرناوعدہ خلافی بھی ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے وعدے کی پاسداری کرنے کا حکم دیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا (الإسراء: 34)
اورعہد کو پورا کرو، بے شک عہد کا سوال ہوگا۔
یہ قانون شکنی بھی ہے؛ کیوں کہ حکومتی قوانین کے مطابق نقل کرنے کی اجازت نہیں ہوتی، اس لیے نقل کرنا یا کسی کو نقل کروانا نا جائز اور حرام ہے۔
اگر انسان نے نقل کرنے کے لیے رشوت دی ہے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ درج ذیل وعید کی زد میں بھی آجائے گا۔
سيدنا ابوہریره رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّاشِيَ وَالْمُرْتَشِيَ فِي الْحُكْمِ (سنن ترمذي، أبواب الأحكام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: 1336) (صحيح)
رسول اللہ ﷺنے فیصلے میں رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے دونوں پر لعنت بھیجی ہے۔
امتحانات میں نقل کرنے سےمستقبل میں کئی ایک خرابیاں بھی پیدا ہوتی ہیں:
1. انسان حکومتی ادارے سے سرٹیفکیٹ لے لیتا ہے حالانکہ وہ اس کا حق دارنہیں ہے۔
2. اس سرٹیفکیٹ کی بنیاد پروہ نوکری کرے گا تو اس سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی محل نظر ہے۔
3. نااہل لوگوں اداروں میں آجاتے ہیں جس سے نظام تباہ ہو جاتا ہے۔
والله أعلم بالصواب.