سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

بینک کی طرف سے دیئے گئے سود کو ہم کہاں خرچ کریں؟

  • 4636
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-23
  • مشاہدات : 310

سوال

بینک والے جو انٹرسٹ (سود) دیتے ہیں ہم اسے کہاں خرچ کریں؟

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر نقدی کو محفوظ کرنے کا کوئی اور ذریعہ نہ ہو تو مجبوری کی بنا پر بنک میں اکاؤنٹ کھلوایا جا سکتا ہے، لیکن بنک سے سود وصول کرنا قطعی طور پر جائز نہیں ہے بلکہ کبیرہ گناہ ہے۔ بہت سی قرآنی آیات اور احادیث میں سود لینے سے منع کیا گیا ہے بلکہ سود لینے کو اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ اعلان جنگ قرار دیا گیا ہے۔
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُؤُوسُ أَمْوَالِكُمْ لا تَظْلِمُونَ وَلا تُظْلَمُونَ. (البقرة: 278-279)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور سود میں سے جو باقی ہے چھوڑ دو، اگر تم مؤمن ہو۔ پھر اگر تم نے یہ نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بڑی جنگ کے اعلان سے آگاہ ہو جاؤ، اور اگر توبہ کر لو تو تمہارے لیے تمہارے اصل مال ہیں، نہ تم ظلم کرو گے اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔
سیدنا جابر رضى اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ، وَقَالَ: هُمْ سَوَاءٌ .(صحيح مسلم، المساقاة: 1598)
رسول كريم صلى اللہ علیہ وسلم  نے سود كھانے والے، سود كھلانے والے ، سود لكھنے والے، اور سود كے گواہ بننے والوں  پر لعنت فرمائى ہے، اور فرمایا: يہ سب (گناہ میں) برابر ہيں۔
اس لیے آپ پر واجب ہے کہ آپ اس گناہ سے توبہ کریں، جو كچھ ہو چكا اس پر ندامت کا اظہار کریں، اور پختہ عزم كریں كہ آئندہ ایسے عظيم گناہ اور جرم كا ارتكاب نہيں كریں گے، جس سے قرآن و احادیث میں منع کیا گیا ہے۔
جو آپ نے بنک سے انٹرسٹ (سود) لیا ہے وہ بنک کو واپس نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی آپ کے لیے اسے کھانا جائز ہے۔ اسے مسکینوں، فقیروں میں تقسیم کر دیں، اگر کوئی مقروض شخص اپنا قرض ادا نہیں کر سکتا اس کی معاونت بھی اس مال سے کی جا سکتی ہے، سڑکیں، ہسپتال وغیرہ  بھی بنائے جا سکتے ہیں، یتیموں اور بیواؤں پر بھی ایسا مال خرچ کیا جا سکتا ہے۔
لیکن یاد رہے! کہ جب آپ یہ مال فقیروں، مسکینوں وغیرہ میں تقسیم کریں گے تو صدقے کی نیت نہیں کریں گے؛ کیوں کہ اللہ تعالی حرام مال قبول نہیں کرتا۔
سیدنا  ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ اللهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا (صحيح مسلم، الزكاة: 1015)
اے لوگو! بلاشبہ اللہ تعالی پاک ہے، اور پاکیزہ مال ہی قبول کرتا ہے۔
لہذا آپ مال خرچ کرتے وقت یہ نیت کریں گے کہ آپ گناہ سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں اور  اپنے مال کو سود سے پاک کرنا چاہتے ہیں۔ 

 والله أعلم بالصواب

محدث فتویٰ کمیٹی

01. فضیلۃ الشیخ ابومحمد عبدالستار حماد حفظہ اللہ

 

تبصرے