سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

کسی کی طرف سے طواف یا حج یا عمرہ کرنا

  • 4617
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-20
  • مشاہدات : 213

سوال

کیا کوئی شخص (جو حج یا عمرہ پر گیا ہو) کسی زندہ شخص کی طرف سے طواف کر سکتا ہے اور کیا کسی دوسرے شخص کی طرف سے عمرہ یا حج بھی ادا ہو سکتا ہے؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں تفصیلاً بیان فرما دیں۔

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کسی زندہ یا مردہ کی طرف سے اکیلا طواف ادا نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اس کی کوئی دلیل قرآن وسنت میں موجود نہیں ہے۔ جیسے نماز کسی اور کی طرف سے نہیں پڑھی جا سکتی، ایسے ہی طواف بھی کسی اور کی طرف نہیں کیا جا سکتا، لیکن جب کوئی انسان کسی دوسرےشخص کی طرف سے حج یا عمرہ ادا کرتا ہے تو (حج یا عمرہ میں کیا ہوا) طواف اس شخص کی طرف سے ہی ہوتا ہے۔

زندہ شخص کی طرف سے عمرہ یا حج (چاہے فرضی ہو یا نفلی) اس صورت میں ہو سکتا ہے جب وہ خود (بیماری یا بڑھاپے کی وجہ سے) حج یا عمرہ ادا کرنے کی قدرت نہ رکھتا ہو، ہاں اگر وہ فی الوقت بیمار ہو اور اس کے تندرست ہونے کا امکان ہو تو وہ تندرست ہو کر خود حج یا عمرہ اداکرے گا، کسی اور آدمی کا   اس کی طرف سے حج یا عمرہ ادا  کرنا جائز نہیں ہے۔

حجۃ الوداع کے موقع پر خثعم قبیلہ کی ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا:

إِنَّ فَرِيضَةَ اللَّهِ عَلَى عِبَادِهِ فِي الحَجِّ أَدْرَكَتْ أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا، لاَ يَثْبُتُ عَلَى الرَّاحِلَةِ، أَفَأَحُجُّ عَنْهُ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، وَذَلِكَ فِي حَجَّةِ الوَدَاعِ۔ (صحيح البخاري، الحج: 1513، صحيح مسلم، الحج: 1334)
اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ تعالیٰ کا فریضہ حج جو اس کے بندوں پر عائد ہے، اس نے میرے بوڑھے باپ کو پا لیا ہے مگر وہ سواری پر نہیں بیٹھ سکتا، تو کیا میں اس کی طرف سے حج کر سکتی ہوں؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں!‘‘ ۔

مردہ شخص کی طرف سے حج کرنا:
اگر میت پر حج فرض ہو چکا تھا لیکن اس نے سستی کرتے ہوئے اپنی زندگی میں حج نہیں ادا کیا تو اس کی طرف سے حج ادا نہیں کیا جائے گا کیونکہ اس کی طرف سے حج ادا کرنا اسے فائدہ نہیں دے گا، کیونکہ اس نےجان بوجھ کر سستی کی ہے اور اس فریضہ کو اپنی زندگی میں ادا نہیں کیا جس کا ادا کرنا اس پر  فوری واجب تھا۔

اگر میت کے پاس اپنی زندگی میں حج کی استطاعت نہیں تھی یا استطاعت تھی لیکن وہ بیماری یا بڑھاپے کی وجہ سے خود حج نہیں ادا کر سکا تو اس کی طرف سے حج کرنا افضل اور اچھا عمل ہے۔ اس کے ورثاء خصوصاً اولاد کو چاہیے کہ اگر وہ اس کی طرف حج کر سکتے ہوں تو ضرور کریں۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کہتے ہوئے سنا کہ وہ کہہ رہا تھا:

لبيك عن شُبْرُمَةَ، قال: "من شُبْرُمَة؟ " قال: أخٌ لي، أو قريبٌ لي، قال: "حججتَ عن نفسِك؟ " قال: لا، قال: "حج عَنْ نفسِكَ ثم حُجَّ عن شُبْرَمَة۔ (سنن أبي داود، المناسك: 1811، سنن ابن ماجه، المناسك: 2903) (صحيح)
(لبيك عن شبرمة) میں شبرمہ کی طرف سے حاضر ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: شبرمہ کون ہے؟ اس نے کہا کہ میرا بھائی ہے یا قریبی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تم نے اپنی طرف سے حج کر لیا ہے؟ اس نے کہا، نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (پہلے) اپنی طرف سے حج کرو، پھر شبرمہ کی طرف سے کرنا۔

والله أعلم بالصواب

محدث فتوی کمیٹی
01. فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
02. فضیلۃ الشیخ عبد الخالق حفظہ اللہ

ماخذ:محدث فتویٰ کمیٹی