الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہمارے علم کے مطابق دعا کی قبولیت کا ایسا کوئی طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت نہیں ہے۔ کسی بھی عبادت کو کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس بات کا یقین کر لیا جائے کہ کیا یہ طریقہ عبادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے؟ اگر ثابت ہے تو پھر اس کا کرنا جائز ہے، ورنہ اس عبادت کو بجالانا بدعت کہلائے گا ، کیونکہ اللہ تعالی کے ہاں ہر نیک عمل کے قبول ہونے کی دو بنیادی شرطیں ہیں:
01. اخلاص (کہ انسان اللہ تعالی کی رضا اور خوشنودی کے لیے عمل کرے ، ریاکاری اور دکھلاوا مقصود نہ ہو)
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ (البينة:5)
اور انھیں اس کے سوا حکم نہیں دیا گیا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں، اس حال میں کہ اس کے لیے دین کو خالص کرنے والے ہوں۔
02. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی (یعنی عمل ویسے ہی سرانجام دیا جائے جیسےاللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کر کے دکھایا ہے)
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَد (صحيح مسلم، الأقضية:1718)
جس شخص نے ایسا عمل کیا جس کے بارے میں ہمارا حکم نہیں ہے وہ مردود اور باطل ہے (اللہ تعالی کے ہاں قبول نہیں ہے)۔
اگر کسی کے دل میں خیال بھی آیا کہ میری دعا قبول نہیں ہو گی اس نے کفر کیا؟
اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ ہمارے علم کے مطابق دعا کی قبولیت کا ایسا کوئی طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے ، تو ایک غیر ثابت شدہ چیز پر کفر کا فتوی کیسے لگایا جا سکتا ہے؟
احادیث مبارکہ میں دعا کرنے کے آداب ذکر کیے گئے ہیں، ان میں ایک ادب سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ادْعُوا اللَّهَ وَأَنْتُمْ مُوقِنُونَ بِالإِجَابَةِ (سنن ترمذي، الدعوات: 3479) (صحيح)
تم اللہ تعالی سے دعا اس طر ح کرو کہ تمہیں قبولیت کا پورا یقین ہو۔
اس لیے انسان کو دعا اس یقین کے ساتھ کرنی چاہیے کہ اللہ تعالی ضرور اس کی دعا قبول کرے گا، لیکن یہ کہنا کہ اگر دعا کی عدم قبولیت کا خیال بھی آیا تو اس نے کفر کیا یہ جائز نہیں ہے، کیونکہ خیالات انسان کے اختیار میں نہیں ہیں، انسان کو ہر وقت سینکڑوں خیالات آتے رہتے ہیں اللہ تعالی ان خیالات پر انسان کو نہیں پکڑتا، جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي مَا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا، مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَتَكَلَّم (صحيح البخاري، الطلاق: 5269)
اللہ تعالٰی نے میری امت سے ان خیالات کو معاف کر دیا ہے جو ان کے دلوں میں پیدا ہوں جب تک ان کے مطابق عمل نہ کریں یا زبان پر نہ لائیں۔
ویسے بھی کسی مسلمان کو کافر کہنا بہت حساس اور اہم معاملہ ہے، اس بارے میں اتنہائی احتیاط کرنی چاہیے۔ کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہے اگرچہ وہ گناہ گار اور فاسق وفاجر ہی کیوں نہ ہو۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِأَخِيهِ : يَا كَافِرُ. فَقَدْ بَاءَ بِهِ أَحَدُهُمَا (صحيح البخاري، الأدب: 6103)
جب آدمی اپنے بھائی کو کافر کہہ کے پکارتا ہے تو دونوں میں سے (کہنے والا یا جس کو کہا گیا ہے) ایک کافر ہو جاتا ہے۔
اور سیدنا ثابت بن الضحاک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ قَذَفَ مُؤْمِنًا بِكُفْرٍ، فَهُوَ كَقَتْلِهِ (صحیح البخاری، الأدب: 6047)
جس شخص نے مؤمن آدمی پر کفر کا الزام لگایا، یہ اس کے قتل کرنے کے مترادف ہے۔
لہذا کسی کلمہ گو مسلمان کو بغیر دلیل کے کافر کہنا حرام ہے۔ البتہ اگر کوئی مسلمان کلمہ پڑھنے کے باوجود کسی کفریہ کام کا ارتکاب کرتا ہے تو پھر علماء شرائط ونواقض کا خیال رکھتے ہوئے اسے کافر قرار دے سکتے ہیں۔ لیکن عام آدمی کے پاس اس بات کا اختیار نہیں ہے کہ وہ جس کو چاہے کافر قرار دے دے۔
والله أعلم بالصواب
محدث فتوى کمیٹی
01. فضیلۃالشیخ جاويد اقبال سيالكوٹی حفظہ اللہ
02. فضیلۃالشیخ اسحاق زاہد حفظہ اللہ