الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شریعت اسلامیہ میں مرد وزن کو بدکاری وفحاشی، عریانی و بےحیائی سے محفوظ رکھنے کےلئے نکاح کی اہمیت انتہائی زیادہ ہے۔ شیاطین اور اس کے چیلے جو مسلمان کے ازلی دشمن ہیں اسے راہ راست سے ہٹانے کےلئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ موجودہ معاشرے میں بھی امت مسلمہ میں ان اخلاق رذیلہ کو عام کرنے کےلئے مختلف یہودی ادارے اور آزادی نسواں کے نام سے اٹھنے والی تحریکیں اور یہود ونصاریٰ کے تحت اسلامیات کی ڈگریاں لینے والے پروفیسر، ججز اور وکلاء اپنا اپنا فرض ادا کر رہے ہیں۔
اگر کوئی لڑکا اور لڑکی عشق معاشقے کی صورت میں گھر سے راہ فرار اختیار کرتے ہیں تو انہیں پولیس اور نام نہاد عدالتوں کا سہارا مل جاتا ہے۔ وہ اپنی اس غلط محبت کو ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کے بندھن کا روپ دھار لیتے ہیں۔ آج کل نوجوان لڑکیوں کی خودسری اور گھروں سے فرار اختیار کرنے کی وبا عام ہے بدقسمتی کی بات ہے بعض نام نہاد علماء بھی انہیں سند جواز فراہم کرتے ہیں ان بدقماش اور آوارہ لڑکیوں کی تائید کر کے معزز اور شریف والدین کی بےعزتی اور بےبسی کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔
شرعی حکم کے مطابق نکاح میں ولی اور دو گواہوں کا ہونا شرط ہے۔ سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا نِكَاحَ إلا بِوَليٍّ۔ (سنن أبی داود، النكاح: 2085، سنن ترمذی، النكاح: 1101، سنن ابن ماجه، النكاح: 1881) (صحیح)
ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔
دوسری حدیث میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أيُّما امرأةٍ نكَحَتْ بغيرِ إذن مَوَاليها فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ۔ (سنن أبی داود، النكاح: 2083، سنن ترمذی، النكاح: 1102) (صحيح)
جو عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے گی اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے۔
اسی طرح نکاح کے وقت دو گواہوں کی موجودگی بھی شرط ہے۔ جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ، وَشَاهِدَيْ عَدْل۔ (صحیح الجامع: 7557)
ولی اور دو گواہوں کی موجودگی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔
مندرجہ بالا احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نکاح میں ولی اور دو گواہوں کی موجودگی شرط ہے۔
چونکہ آپ نے ولی کی رضامندی کے بغیر نکاح کیا تھا اس لیے آپ کا اس عورت سے نکاح کرنا باطل تھا اور آپ کا اس عورت کو اپنے پاس رکھنا، تعلقات قائم کرنا شریعت کی رو سے ناجائز اور حرام تھا۔ جب نکاح ہی نہیں ہوا تو اس عورت کو طلاق بھی واقع نہیں ہوئی کیونکہ طلاق اس عورت کو ہوتی ہے جو نکاح میں ہو۔
حلالہ کروانا:
یہ بات یاد رہے کہ اگر عورت کو تین طلاقیں ہو جائیں تو حلالہ کروانا حرام اور کبیرہ گناہ ہے، یہ غیرشرعی نکاح کے ذریعے عورت کو سابقہ خاوند کے لیے حلال کرنے کا حیلہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ کرنے والے اور کروانے والے دونوں پر لعنت کی ہے اور حلالہ کرنے والے کو کرائے کا سانڈ قرار دیا ہے، جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُحِلَّ وَالْمُحَلَّلَ لَهُ۔ (سنن الترمذی، النكاح: 1120، سنن النسائی، الطلاق: 3416) (صحيح)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ کرنے والے اور حلالہ کرانے والے (دونوں) پر لعنت کی ہے۔
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِالتَّيْسِ الْمُسْتَعَارِ؟ قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: هُوَ الْمُحَلِّلُ، لَعَنَ اللَّهُ الْمُحَلِّلَ وَالْمُحَلَّلَ لَهُ۔ (سنن ابن ماجه،: 1936) (صحيح)
كیا میں کرائے کے سانڈ کے متعلق نہ بتاؤں (کہ وہ کون ہوتا ہے؟) صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے کہا: جی ہاں (بتائیے) اے اللہ کے رسول! فرمایا: وہ حلالہ کرنے والاہے، اللہ نے حلالہ کرنے والے اور حلالہ کرانے والے (دونوں) پر لعنت فرمائی ہے۔
اگر آپ اس عورت سے نکاح کرنا چاہتے ہیں تو شرعی طریقے کے مطابق نکاح کر سکتے ہیں، جس میں ولی کی اجازت، عورت کی رضامندی، حق مہر اور دو گواہوں کی موجودگی لازمی ہوگی۔
والله أعلم بالصواب
محدث فتویٰ کمیٹی
01. فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
02. فضیلۃ الشیخ عبدالخالق حفظہ اللہ
03. فضیلۃ الشیخ محمد اسحاق زاہد حفظہ اللہ