الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر انسان اپنی بیوی کو بول کر طلاق دیتا ہے تو طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ اسی طرح اگر طلاق بالکل واضح لفظوں میں لکھ کر بھیج دیتاہے، اور اس کی نیت بھی طلاق دینے کی ہے، تو بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے، کیونکہ انسان لکھ کر بھی اپنے ما فی الضمیر کا اظہار کرتا ہے، گویا کہ انسان کا قلم بھی اس کی زبان کی طرح ہے۔
اس لیے اگر آپ نے بالکل واضح لفظوں میں طلاق لکھ کر کسی کے ہاتھ بھیج دی تھی، اور آپ کی نیت بھی طلاق دینے کی تھی تو آپ کی طلاق واقع ہو چکی ہے۔
اگر آپ نے ایک طلاق لکھ کر بھیجی تھی تو عدت کے دوران آپ رجوع کر سکتے تھے، عدت گزرنے کے بعد نئے سرے سے نکاح ہوگا، اس میں ولی، دو گواہ، حق مہر، عورت کی رضا مندی ضروری ہے۔
اگر آپ نے تین طلاقیں ایک ہی وقت میں اکھٹی لکھ کر بھیج دی تھیں تو آپ کی ایک طلاق واقع ہوئی ہے، آپ دوران عدت رجوع کر سکتے تھے، عدت گزرنے کے بعد نئے سرے سے نکاح ہوگا، اس میں ولی، دو گواہ، حق مہر، عورت کی رضا مندی ضروری ہے۔ کیوں کہ نکاح کے مضبوط بندھن کو شریعت نے یک لخت ختم نہیں کیا بلکہ تین طلاق کا سلسلہ اور پھر ان میں سے پہلی دو کے بعد سوچنے اور رجوع کرنے کا موقع دیا ہے تاکہ گھر ٹوٹنے سے بچ جائے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَة .(صحيح مسلم، الطلاق: 1472)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے پہلے دو سال تک اکٹھی تین طلاقیں ایک طلاق ہی شمار ہوتی تھیں۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے طلاق کے ناجائز طریقے کی روک تھام کے لیے ایک سیاسی فیصلہ کیا تھا کہ جس نے اکٹھی تین طلاقیں دے دیں ہم اسے نافذ کر دیں گے، یہ وقتی سیاسی فیصلہ تھا، شرعی نہیں تھا۔ (حاشية الطحاوي على الدر المختار: 2/105)
والله أعلم بالصواب
محدث فتویٰ کمیٹی
01. فضیلۃ الشیخ ابومحمد عبدالستار حماد حفظہ اللہ
02. فضیلۃ الشیخ عبدالخالق حفظہ اللہ