سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

اگر حیض کی حالت میں طلاق دی جائے تو کیا وہ حیض عدت میں شمار ہوگا؟

  • 3840
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-04
  • مشاہدات : 96

سوال

حالت حیض میں دی گئی طلاق کی عدت میں وہ حیض شامل ہوگا یا اس حیض کے بعد تین کامل حیض بطور عدت کے گزارے جائیں گے؟

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ارشاد باری تعالی ہے:

ﱡيَاأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنّ ﱠ۔ (الطلاق: 1)
اے نبی! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت کے وقت طلاق دو۔ 

مفسرین نے مذکورہ بالا آیت کی تفسیر کرتے ہوئے وضاحت فرمائی ہے کہ  ﱡفَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنّ ﱠ سے مراد یہ ہے کہ تم عورتوں کو ان کی عدت کے وقت طلاق دو، یعنی جب عورت حیض سے پاک ہو تو پاکی کی حالت میں ہمبستری کیے بغیر طلاق دو، تا کہ اس کی عدت کسی کمی یا زیادتی کے بغیر پوری ہو، کیوں کہ اگر تم حالت حیض میں طلاق دو گے تو اگر اس حیض کو عدت میں شمار کرو تو عدت تین حیض سے کم رہ جائے گی اور اگر شمار نہ کرو تو تین حیض سے زیادہ ہو جائے گی، کیوں کہ بعد میں آنے والے تین حیضوں کے ساتھ اس حیض کے وہ ایام بھی شامل ہوں گے جو طلاق کے بعد باقی ہوں گے۔ اسی طرح اگر تم انہیں ایسے طہر میں طلاق دو گے جس میں ان کے ساتھ جماع کیا ہے تو ممکن ہے کہ حمل ٹھہر جائے، اس صورت میں معلوم نہیں ہو سکے گا کہ اس کی عدت کےلیے تین حیض کا اعتبار ہوگا یا وضع حمل کا۔

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی، عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا، ثُمَّ لِيُمْسِكْهَا حَتَّى تَطْهُرَ، ثُمَّ تَحِيضَ ثُمَّ تَطْهُرَ، ثُمَّ إِنْ شَاءَ أَمْسَكَ بَعْدُ، وَإِنْ شَاءَ طَلَّقَ قَبْلَ أَنْ يَمَسَّ، فَتِلْكَ العِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ أَنْ تُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ۔ (صحيح البخاری، الطلاق: 5251، صحيح مسلم، الطلاق: 1471)
اسے حکم دو کہ وہ اس سے رجوع کرے، پھر اسے اپنے پاس رکھے یہاں تک کہ وہ پاک ہو جائے، پھر اسے حیض آئے، پھر پاک ہو، پھر اگر چاہے تو اپنے پاس رکھے اور اگر چاہے تو چھونے سے پہلے طلاق دے دے، کیونکہ یہ وہ عدت ہے جس کے وقت اللہ تعالی نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔

واضح رہے کہ طلاق دینے کا سنت طریقہ درج ذیل ہے:

01. انسان اپنی بیوی کو پاکی کی حالت میں جماع کیے بغیر طلاق دے۔
02. ایک طلاق دے، ایک سے زائد طلاقیں نہ دے۔
03. طلاق دینے کے بعد اگر رجوع کرنا چاہتا ہے تو کر لے ورنہ  عورت کی عدت ختم ہونے دے اور اسے چھوڑ دے۔

مندرجہ بالا سطور سے واضح ہوتا ہے کہ حیض کی حالت میں عورت کو طلاق دینا خلاف سنت ہے، ایسے کرنے والے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی کی ہے، اسے اپنے گناہ سے توبہ کرنی چاہیے اور یہ عزم بھی کرے کہ آئندہ ایسی خلاف ورزی کا مرتکب نہیں ہو گا۔

لیکن اگر کسی آدمی نے حیض کی حالت میں طلاق دے دی ہے تو اس کی طلاق ہو جائے گی، لیکن اس حیض کو عدت میں شمار نہیں کیا جائے گا جس میں طلاق دی گئی ہے بلکہ اس کے بعد جو حیض آئے گا وہ پہلا شمار ہو گا، کیوں کہ اللہ تعالی نے تین حیض عدت گزارنے کا حکم دیا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:

ﱡوَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ ﱠ۔ (البقرة: 228)
اور وہ عورتیں جنہیں طلاق دی گئی ہے اپنے آپ کو تین حیض تک انتظار میں رکھیں۔

اگر اس حیض کو بھی عدت میں شمار کیا جائے جس میں طلاق دی گئی ہے تو تین حیض پورے نہیں ہوتے بلکہ ایک حیض کے کچھ ایام کم رہ جائیں گے، اس لیے تمام علماء کے ہاں اس حیض کو عدت میں شمار نہیں کیا جائے گا جس میں طلاق دی گئی ہے۔ (المغنی، جلد نمبر  8، صفحہ نمبر 102)

والله أعلم بالصواب

محدث فتویٰ کمیٹی
01. فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
02. فضیلۃ الشیخ عبدالخالق حفظہ اللہ
03. فضیلۃ الشیخ محمد اسحاق زاہد حفظہ اللہ

ماخذ:محدث فتویٰ کمیٹی