سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

میت کے ورثا میں سے بیوی،2 بھائی، تین بہنیں اور بھتیجے زندہ ہیں۔ جائیداد کیسے تقسیم ہو گی؟

  • 3265
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-13
  • مشاہدات : 56

سوال

محمد حسن فوت ہو گیا ہے ، وہ شادی شدہ تھا مگر اس کی کوئی اولاد نہیں تھی اس کی بیوی زندہ ہے ۔ محمد حسن کے والدین محمد حسن سے پہلے ہی فوت ہو گئے ہیں۔ محمد حسن کے دو بھائی میھار اور غلام حیدر ہیں۔ ان میں سے بھائی میھار محمد حسن سے پہلے ہی فوت ہو گئے ہیں مگر بھائی میھار کی اولاد زندہ ہے۔ محمد حسن تین بہنیں نور خاتون ، رحمت اور زولیخہ ہیں ۔ تینون بہنیں زندہ ہیں۔ تقسیم مال درکرار ھے ۔؟

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سوال میں مذکور صورت حال کے مطابق میت کے ورثاء میں سے میت کی بیوی، بھائی غلام حیدر ، بھائی میھار کی اولاد، اور تین بہنیں نور خاتون، رحمت اور زولیخہ زندہ ہیں، میت کی کل جائیداد کی تقسیم شرعی اصولوں کے مطابق درج ذیل طریقہ سے کی جائے گی:

نمبر شمار میت کا ورثاء جائیداد کی تقسیم سارے مال کے 20 حصے کر لیے جائیں فیصد

1بیوی کل مال کا چوتھا حصہ 5 حصے %25.0

2 غلام حیدر

ایک بھائی اور تین بہنوں کو باقی ساری جائیداد ملے گی 6 حصے %30.0

3 نور خاتون 3 حصے %15.0

4 رحمت 3 حصے %15.0

5 زولیخہ 3 حصے %15.0

6 میھار کی اولاد ان کو کچھ نہیں ملے گا 0 0

بیوی کے چوتھا حصہ لینے کی دلیل ارشاد باری تعالی ہے:

وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ (النساء: 12)

اور ان کے لیے (یعنی بیویوں کے لیے) اس میں سے چوتھا حصہ ہے جو تم چھوڑ جاؤ، اگر تمہاری کوئی اولاد نہ ہو۔

بقیہ مال بھائی اور بہنیں لیں گے، اس کی دلیل ارشاد باری تعالی ہے:

يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُهَا إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهَا وَلَدٌ فَإِنْ كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ وَإِنْ كَانُوا إِخْوَةً رِجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَنْ تَضِلُّوا وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (النساء: 176) 

وہ تجھ سے پوچھتے ہیں، کہہ دے کہ اللہ تمہیں کلالہ کے بارے میں فتوی دیتاہے، اگر کوئی آدمی ہو جائے،جس کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کی ایک بہن ہو تو اس کے لیے اس کا نصف ہے جو اس نے چھوڑا اور وہ (خود) اس (بہن) کا وارث ہو گا، اگر اس (بہن)کی کوئی اولاد نہ ہو۔ پھر اگر وہ دو (بہنیں) ہوں تو ان کے لیے اس میں سے دو تہائی ہو گا جو اس نے چھوڑا اور اگر وہ کئی بھائی بہن مرد اور عورتیں ہوں تو مرد کے لیے دو عورتوں کے حصے کے برابر ہو گا۔ اللہ تمھارے لیے کھول کر بیان کرتا ہے کہ تم گمراہ نہ ہو جاؤ اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔

 

بھتیجوں کو بھائی کی موجودگی میں کچھ نہیں ملے گا، اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 أَلْحِقُوا الفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَر (صحيح البخاري، الفرائض: 6732)

تم فرض حصے یعنی مقرر حصے ان کے حقداروں تک پہنچا دو اور جو باقی بچ جائے وہ میت کے قریب ترین مرد کے لیے ہے۔

بھائی بھتیجوں کی بہ نسبت میت سے زیادہ قریب ہے اس لیے بھائی وارث ہو گا، اور اس کے ساتھ بہنیں وارث بنیں گی ، لیکن بھتیجے محروم ہو جائیں گے۔

والله أعلم بالصواب

محدث فتویٰ کمیٹی

01. فضیلۃ الشیخ ابومحمد عبدالستار حماد حفظہ اللہ

ماخذ:محدث فتویٰ کمیٹی