الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شرعی طور پر عقیقہ کرنے کا مطالبہ نو مولود کے والد سے ہے؛ کیونکہ اسی پر اس نومولود کی کفالت کی ذمےداری ہے۔ اگر آپ کے والدین کا عقیقہ بچپن میں نہیں ہوا تو آپ (یعنی ان کی اولاد) ان کی طرف سے عقیقہ کر سکتے ہیں۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
عَقَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا بِكَبْشَيْنِ كَبْشَيْن(سنن النسائي، العقيقة: 4219) (صحيح)
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن اور حسین کی طرف سے دو دو مینڈھے عقیقہ کیا۔
مذکورہ بالاحدیث سے پتہ چلتا ہے کہ والد کے علاوہ کوئی اور شخص بھی عقیقہ کر سکتا ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حسن اور حسین کے والد نہیں تھے۔
عقیقے کا شرعی طریقہ اور گوشت کی تقسیم:
عقیقہ بچہ پيدا ہونے كى خوشى ميں اللہ تعالى كے شکرانے کے طور پر ضروری قرار دیا گیا ہے، یہ بچہ پیدا ہونے کے بعد ساتویں دن کیا جائے گا، جیسا کہ سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
كلُّ غلامٍ رَهينةٌ بعقيقتِه: تُذبَح عنه يومَ سابعِه، ويُحلَقُ، ويُسمَّى(سنن أبي داود، الأضاحي: 2838). (صحيح)
ہر بچہ اپنے عقیقہ کے ساتھ گروی ہوتا ہے، جو اس کی طرف سے ساتویں دن ذبح کیا جائے گا، اس کے سر کو منڈوایا جائے گا اور اس کا نام رکھا جائے گا۔
اس لیے عقیقہ بچہ ہونے کے بعد ساتویں دن کیا جائے گا اگر بچہ جمعہ والے دن پیدا ہوا ہے تو ساتواں دن جمعرات ہو گا اگر اتوار کو پیدا ہوا ہے تو ساتواں دن ہفتہ ہوگا، ہاں اگرمالی مجبوری یا مسئلے سے لاعلمی کی بنا پر ساتویں دن عقیقہ نہیں کیا جا سکا تو جب بھی خوش حالی میسر آئے یا مسئلہ کا علم ہو جائے تو عقیقہ کیا جا سکتا ہے۔
عقیقہ کے گوشت کی تقسیم کے حوالے سے احاديث مبارکہ میں كوئى واضح رہنمائی نہیں کی گئی، اس لیے اس کا گوشت خود بھى كھائيں، اپنے اہل و عيال كو بھى كھلائيں، رشتے داروں اور ہمسایوں کو بھی دیا جا سکتا ہے، كچھ صدقہ بھی كر ديں۔
والله أعلم بالصواب
محدث فتوی کمیٹی
01. فضیلۃ الشیخ ابومحمد عبدالستار حماد حفظہ اللہ
02. فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
03. فضیلۃ الشیخ عبدالحلیم بلال حفظہ اللہ
04. فضیلۃ الشیخ عبدالخالق حفظہ اللہ
05. فضیلۃ الشیخ محمد اسحاق زاہد حفظہ اللہ