الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اسلام میں زکاۃ کا نصاب متعین ہے۔ ہر مال پر زکاۃ واجب نہیں ہے، بلکہ جب مال نصاب کو پہنچتا ہو تو زکاۃ فرض کی گئی ہے۔ سونے کا نصاب 85 گرام مقرر ہے، اور چاندی کا 595 گرام ہے۔
اگر کسی آدمی کے پاس 85 گرام سونا (ساڑھے سات تولہ) یا 595 گرام چاندی (ساڑھے باون تولہ) یااس سے زائد مقدار پورا سال پڑی رہے تو سال گزرنے کے بعد اڑھائی فیصد کے حساب سے زکاۃ ادا کرے گا۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا كَانَتْ لَكَ مِائَتَا دِرْهَمٍ وَحَالَ عَلَيْهَا الْحَوْلُ فَفِيهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ ، وَلَيْسَ عَلَيْكَ شَيْءٌ يَعْنِي فِي الذَّهَبِ حَتَّى يَكُونَ لَكَ عِشْرُونَ دِينَارًا ، فَإِذَا كَانَ لَكَ عِشْرُونَ دِينَارًا وَحَالَ عَلَيْهَا الْحَوْلُ فَفِيهَا نِصْفُ دِينَارٍ، فَمَا زَادَ فَبِحِسَابِ ذَلِكَ. (سنن أبي داود، الزكاة: 1573) (صحيح)
جب تیرے پاس 200 درہم (595 گرام چاندی) ہو، اس پر سال گزر جائے تو اس میں 5 درہم (زکاۃ) ہے، اور تیرے پاس جو سونا ہے اس میں تب زکاۃ واجب ہو گی جب وہ 20 دینار (85 گرام) ہو جائے، جب سونا 20 دینار (85گرام) ہو جائے اور اس پر سال گزر جائے تو اس میں آدھا دینار (زکاۃ) ہے، اور جو اس سے زائد ہو اس کی زکاۃ بھی اسی حساب (اڑھائی فیصد) سے دی جائے گی۔
قربانی کا حکم:
قربانی صاحبِ حیثیت شخص پر ضروری ہے، یعنی اگر انسان کے پاس اپنے اخراجات اور ذاتی ضروریات سے زائد مال ہو تو اسے قربانی کرنی چاہیے۔ مثلا: اس کا ماہانہ خرچہ 50 ہزار روپے ہے اور اس کے پاس 50 ہزار سے زائد اتنی رقم ہے جس سے وہ قربانی خرید سکتا ہے تو اسے قربانی کرنی چاہیے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ كَانَ لَهُ سَعَةٌ، وَلَمْ يُضَحِّ، فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا .(سنن ابن ماجه، الأضاحي: 3123) (صحيح)
جس کے پاس استطاعت ہو پھر وہ قربانی نہ کرے، وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے۔
اگر جوائنٹ فیملی سسٹم ہے تو گھر کا سربراہ قربانی کرے گا، اور وہ تمام گھر والوں کی طرف سے ہو جائے گی۔
سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے جب پوچھا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عید قربان پر قربانیاں کیسے ہوتی تھیں؟ تو انہوں نے فرمايا:
كَانَ الرَّجُلُ يُضَحِّي بِالشَّاةِ عَنْهُ وَعَنْ أَهْلِ بَيْتِهِ فَيَأْكُلُونَ وَيُطْعِمُونَ حَتَّى تَبَاهَى النَّاسُ، فَصَارَتْ كَمَا تَرَى(سنن الترمذی، الأضاحي: 1505) (صحیح)
ایک آدمی اپنی طرف سے اور اپنے تمام گھر والوں کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کرتا تھا، وہ خود بھی اس میں سے کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے تھے، حتی کہ لوگ اس عمل پر فخر کرنے لگے اور معاملہ یہاں تک پہنچ گیا جو آپ کو نظر آرہا ہے۔
مندرجہ بالا احادیث سے علم ہوتا ہے کہ اگر کسی خاتون کے پاس ایک تولہ سونا ہے تو اس پر زکاۃ واجب نہیں ہے، کیوں کہ یہ نصاب کو نہیں پہنچتا۔
قربانی کے حوالہ سے، اگر خاتون کے گھر کا سربراہ صاحب حثییت ہے تو وہ قربانی کرے گا اور گھر کے تمام افراد کی طرف سے قربانی ہو جائے گی، اگر خاتون اکیلی رہتی ہے تو استطاعت نہ ہونے کی بنا پر اس پر قربانی لازمی نہیں ہے۔
جو ہدیہ اور گفٹ بچے کو ملتے ہیں وہ بچے کی ماں اپنے خاوند کی رضامندی سے استعمال کر سکتی ہے، کیونکہ بچے کا ولی اور اس کے مال کا نگران اس کا باپ ہے۔ جیسا کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول!
میرے پاس مال ہے، اور میری اولاد بھی ہے لیکن میرا باپ میرا مال لینا چاہتا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَنْتَ وَمَالُكَ لِأَبِيكَ. (سنن ابن ماجه التجارات: 2291) (صحیح)
تو اور تیرا مال دونوں تیرے باپ کی ملکیت ہیں۔
والله أعلم بالصواب
محدث فتویٰ کمیٹی
01. فضیلۃ الشیخ ابومحمد عبدالستار حماد حفظہ اللہ
02. فضیلۃ الشیخ عبدالخالق حفظہ اللہ