الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اسلام کے پانچ ارکان ہیں جن کی وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث مبارکہ میں فرمائی ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ. (صحيح البخاري، الإيمان: 8، صحيح مسلم، الإيمان: 16)
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی دینا (اس بات کی گواہی کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں اور بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری رسول ہیں)، نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا، (بیت اللہ کا) حج کرنا، رمضان کے روزے رکھنا۔
جو شخص لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا اقرار کرتا ہے وہ مسلمان ہے، اگر کلمہ کا اقرار کرنے کے بعد وہ ایسا کام کرے جو لاالہ الا اللہ کے منافی ہے تو کافر ہو جائے گا اور دائرہ اسلام سے نکل جائے گا۔ جیسے: جو شخص یہ کہے کہ اسلام میں نماز نہیں ہے، میں روزے کو نہیں مانتا، یا زنا کو حلال سمجھتا ہے، شراب کو حلال جانتا ہے، یا عقیدہ رکھتا ہے کہ حج صاحب استطاعت شخص پر بھی واجب نہیں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (نعوذ باللہ) گالی دیتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین نہیں مانتا، وغیرہ۔
لیکن جو شخص لا الہ الا اللہ کا اقرار کرتا ہے، جن چیزوں کو اسلام نے حلال کیا ہے انہیں حلال اور جنہیں حرام کیا ہے انہیں حرام سمجھتا ہے لیکن عمل میں سستی کا مظاہرہ کرتا ہے وہ کافر نہیں ہو گا، لیکن عمل کی نوعیت کے لحاظ سے فاسق کہلائے گا۔
ارکان اسلام کا تارک اور اس کا حکم:
کلمہ طیبہ:
جو شخص کلمہ کا اقرار ہی نہیں کرتا وہ کافر ہے، اسی طرح وہ شخص جو زبان سے کلمہ ادا کرتا ہے لیکن شرکیہ اعمال کرتا ہے وہ مشرک ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
جیساکہ ارشاد باری تعالیٰٰ ہے:
وَمَنْ يَكْفُرْ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ (المائدة: 5)
اور جو ایمان سے انکار کرے تو یقینا اس کا عمل ضائع ہو گیا اور وہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہے۔
اور فرمایا:
وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ (الزمر: 65)
اور بلاشبہ یقینا تیری طرف وحی کی گئی اور ان لوگوں کی طرف بھی جو تجھ سے پہلے تھے کہ بلاشبہ اگر آپ نے اللہ کے ساتھ اوروں کو شریک ٹھرایا تو یقینا آپ کے اعمال بھی ضرور ضائع ہو جائے گے اور آپ ضرور بالضرور خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو جائے گے۔
نماز:
جو شخص اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ نماز واجب ہے لیکن نماز پڑھتا نہیں ہے، ایسا آدمی یقینا فاسق وفاجر اور کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرنے والا ہے اور بعض علماء نے ایسے شخص کو کافر بھی قرار دیا ہے، مالکی اور شافعی علماء کرام فرماتے ہیں کہ ایسے شخص کو نماز پڑھنے کا کہا جائے گا، اور ڈرایا جائے گا کہ اگر تو نے نماز نہ پڑھی تو ہم تجھے قتل کر دیں گے، تین دن تک اس کے ساتھ یہ رویہ اختیار کیا جائے گا، کہ ہر نماز کے وقت اسے نماز کا کہا جائے گا اور نہ پڑھنے پر قتل کی دھمکی دی جائے گی، اگر پھر بھی وہ نماز نہیں پڑھتا تو اسے قتل کر دیا جائے گا۔ (المغنی: جلد نمبر 2،صفحہ نمبر: 329-330)
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
إِنَّ بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ وَالْكُفْرِ تَرْكَ الصَّلَاة. (صحیح مسلم، الإيمان: 82)
یقینا آدمی اور شرک، کفر کے درمیان فرق کرنے والی چیز نماز ہے۔
عبد اللہ بن شقیق رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كَانَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَرَوْنَ شَيْئًا مِنَ الأَعْمَالِ تَرْكُهُ كُفْرٌ غَيْرَ الصَّلَاةِ. (سنن ترمذي، الإيمان: 2622) (صحيح)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نماز کے علاوہ کسی عمل کے نہ کرنے پر کفر کا فتوی نہیں لگاتے تھے۔
بے نمازی کو قتل کرنے کی دلیل ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَإِذَا انْسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ التوبة:5)
پس جب حرمت والے مہینے نکل جائیں تو ان مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو اور انہیں پکڑو اور انہیں گھیرو اور ان کے لیے ہر گھات کی جگہ بیٹھو، پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں زکاۃ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔
مندرجہ بالا آیت میں اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے اور ذکر کیا ہے کہ اگر وہ توبہ کر لیں تو پھر قتل سے بچ سکتے ہیں، اور توبہ اسلام قبول کرنے، نماز پڑھنے اور زکاۃ ادا کرنے کے ساتھ ہو گی، اگر وہ نماز نہیں پڑھتا تو اس نے صحیح طریقے سے توبہ نہیں کی اور قتل سے بچنے کی شرط کو پورا نہیں کیا لہذا اسے قتل کیا جائے گا۔
شيخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس حوالے سے رقمطراز ہیں:
اگر کوئی شخص نماز كا اقرار اور اس كى فرضيت كا اعتقاد ركھتا ہے تو يہ ممكن ہى نہيں كہ وہ قتل ہونے تك ترك نماز پر اصرار كرے، اسلامی تاریخ ميں ایسا واقعہ کبھی پیش نہیں آیا، یعنی ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی شخص کو كہا جائے كہ اگر تم نے نماز ادا نہ كى تو تمہيں قتل كر ديا جائيگا، اور وہ نماز كى فرضيت كا اعتقاد ركھتے ہوئے ترك نماز پر اصرار كرے، ايسا اسلامی تاریخ ميں كبھى نہيں ہوا۔ جب کوئی شخص اس حد تک چلا جائے کہ اسے قتل کر دیا جانا منظور ہو لیکن نماز پڑھنا منظور نہیں، تو وہ حقیقت میں باطنی طور پر نماز کی فرضیت کو مانتا ہی نہیں ہےاور اس کے کافر ہونے پر مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ اور اس حوالہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے متعدد آثار موجود ہیں۔ (بتصرف یسیر)
(مجموع الفتاوى از ابن تيميہ، جلد نمبر: 22 ، صفحہ نمبر: 47 - 49 )
یاد رہے کہ ایسے شخص کو قتل کی دھمکی دینے اور آخر کار نماز نہ پڑھنے کی صورت میں قتل کرنے کا اختیار قاضی کے پاس ہے نہ کہ عام آدمی کے پاس-
زکاۃ، حج، روزہ:
جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ زکاۃ واجب ہے لیکن ادا نہیں کرتا وہ فاسق و فاجر ہے کافر نہیں ہو گا، اسی طرح جو حج کے وجوب کا قائل ہے، روزے فرض سمجھتا ہے لیکن عمل میں سستی کرتا ہے کافر نہیں ہوگا۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَا مِنْ صَاحِبِ كَنْزٍ لَا يُؤَدِّي زَكَاتَهُ، إِلَّا أُحْمِيَ عَلَيْهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ، فَيُجْعَلُ صَفَائِحَ فَيُكْوَى بِهَا جَنْبَاهُ، وَجَبِينُهُ حَتَّى يَحْكُمَ اللهُ بَيْنَ عِبَادِهِ، فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ، ثُمَّ يَرَى سَبِيلَهُ، إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ، وَإِمَّا إِلَى النَّارِ (صحيح مسلم، الزكاة: 987)
جو مالدار اور صاحب ثروت شخص اپنے مال كى زكاۃ نہيں ادا كرے گا اس كے مال كو جہنم ميں گرم كر كے پلیٹیں بنا لی جائيں گی پھر اس كے پہلو اور پيشانى كو داغا جائے گا، حتى كہ اللہ تعالى اپنے بندوں كے مابين اس دن فيصلہ كرے گا جس دن كى مقدار پچاس ہزار برس ہے، پھر وہ اپنا راستہ ديكھے گا يا تو جنت كى طرف يا پھر جہنم كى طرف۔
مندرجہ بالا حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ ہر وہ شخص جو اپنا مال جمع کر کے رکھتا تھا، اس کی زکاۃ نہیں ادا کرتا تھا اسے قیامت کے روز اسی مال سے عذاب دیا جائے گا اور یہ عذاب اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ تمام لوگوں کے بارے میں فیصلہ نہیں فرما دیتا، اس کے بعد اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اس شخص پر رحمت کر کے اپنے فضل سے جنت میں داخل کر دے گا یا پھر اسے مزید عذاب کے لیے جہنم میں بھیج دیا جائے گا (نعوذ باللہ من ذلک)، اللہ تعالیٰ کا اپنی رحمت سے اس شخص کو جنت میں داخل کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ کافر نہیں ہے؛ كيوں کہ کافر کبھی بھی جنت میں نہیں جائے گا۔
والله أعلم بالصواب
محدث فتویٰ کمیٹی
01. فضیلۃ الشیخ ابومحمد عبدالستار حماد حفظہ اللہ
02. فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
03. فضیلۃ الشیخ محمد اسحاق زاہد حفظہ اللہ