الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگرچہ غیر مسلموں کے ساتھ تجارت کرنا جائز ہے بشرطیکہ اس میں کوئی حرام امر،یا فتنے کا اندیشہ نہ ہو۔نبی کریم بھی غیر مسلموں کے ساتھ معاملہ کر لیا کرتے تھے۔جب آپ فوت ہوئے تو آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس تیس صاع جو کے بدلے رہن رکھی ہوئی تھی۔ لیکن موجودہ حالات ،جن میں مسلمانوں کے خلاف آئے روز سازشوں کے جال بنے جارہے ہیں اور ہم سے منافع کما کر ہمارے ہی خلاف استعمال کیا جا رہا ہے اور ہمارے مسلمان بھائیوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ہمیں ان کے ساتھ تجارت کی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چائے۔اور ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا چاہئے۔کیونکہ ان حالات میں ان کے ساتھ تجارت کرنےمیں مسلمانوں کا نقصان ہے ،جس سے شریعت نے منع فرمایا ہے۔ حدیث نبوی ہے: لا ضرر ولا ضرار. [ابن ماجه] بتمام مسلمان ممالک کو چاہئے کہ وہ او آئی سی کے پلیٹ فارم سے اسلامی ممالک کی باہمی تجارت کو فروغ دیں۔تاکہ کسی مسلمان کا کوءی نقصان نہ ہو۔ ھذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب
فتویٰ کمیٹی
محدث فتویٰ