الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
افضل یہی ہے کہ قنوت وتر میں مسنون دعا ہی پڑھی جائے۔ اگر کسی انسان کو دعا زبانی یاد نہ ہو، تو كتاب يا ورقہ سے ديكھ كر پڑھ لے، جیسے کوئی انسان نفلی نماز میں لمبا قیام کرنا چاہتا ہو اور اسے قرآن زبانی یاد نہ ہو، تو اس کے لیے قرآن مجید کھول کرنا تلاوت کرنا جائز ہے، کیونکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ان کا غلام ذکوان نماز میں قرآن مجید کھول کر امامت کروایا کرتا تھا۔ (صحیح البخاری، الأذان، باب إمامة العبد والمولى)
لیکن انسان کو چاہیے کہ دعا زبانی یاد کرے، جب یاد ہو جائے تو زبانى پڑھے۔
نماز وتر ميں دعائے قنوت سنت ہے۔ اگر بعض اوقات نہ بھى پڑھی جائے، تو اس ميں كوئى حرج نہيں، نماز صحيح ہوگی، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو قنوت وتر سکھائی، نہ انہیں اس پر ہمیشگی کرنے کا حکم دیا اور نہ ہی کبھی کبھار چھوڑنے کا، اس سے پتہ چلتا ہے کہ چھوڑنا بھی جائز ہے۔
سیدنا ابی بن کعب سے بھی ثابت ہے کہ وہ مسجد نبوی میں صحابہ کرام کی امامت کرواتے تھے اور کبھی کبھار قنوت وتر چھوڑ دیتے تھے۔
والله أعلم بالصواب.
محدث فتوی کمیٹی