الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر انسان اپنی بیوی کو بول کر طلاق دیتا ہے تو طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ اسی طرح اگر طلاق بالکل واضح لفظوں میں لکھ کر بھیج دیتاہے، اور اس کی نیت بھی طلاق دینے کی ہے، تو بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے، کیونکہ انسان لکھ کر بھی اپنے ما فی الضمیر کا اظہار کرتا ہے، گویا کہ انسان کا قلم بھی اس کی زبان کی طرح ہے۔
اس لیے اگر خاوند نے یہ الفاظ (اب تم میری طرف سے فارغ ہو، تم اب میرے نکاح میں نہیں ہو) میسج کیے ہیں اوراس کی نیت بھی طلاق دینے کی ہے تو طلاق واقع ہوچکی ہے۔
اگر ایک طلاق لکھ کر بھیجی ہے تو اس کو عدت کے دوران رجوع کرنے کے حق حاصل ہے، عدت گزرنے کے بعد نئے سرے سے نکاح ہوگا، اس میں ولی ، دو گواہ، حق مہر، عورت کی رضامندی ضروری ہے۔
1. عورت کا یہ کہنا کہ ایسے طلاق نہیں ہوتی، اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے کیونکہ شرعی حکم کسی کے کہنے سےموقوف نہیں ہو جائے گا۔
والله أعلم بالصواب.
محدث فتوی کمیٹی