الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
طلاق کی عدت خاوند کے طلاق دینے کے فورا بعد شروع ہو جاتی ہے، لہذا سوال میں مذکور صورت حال میں اگر کسی دلیل سے ثابت ہو جائے یا خاوند خود اعتراف کرے کہ اس نے 20 دن پہلے اپنی بیوی کوطلاق دے دی تھی ، تو جب خاوند نے طلاق دی تھی ، اسی وقت سے عدت شروع ہوچکی ہے ، یعنی جب عورت کو طلاق کی اطلاع ملی اس کی عدت کے 20 دن گزر چکے تھے۔
یاد رہے! وہ عورت جسے روٹین سے ماہواری آتی ہے، اس کی عدت کی مدت تین حیض ہے، یعنی طلاق کے بعد اگر عورت کو تین مرتبہ حیض آجائے اور وہ تیسرے حیض سے پاک ہو جائے تو اس کی عدت ختم ہو جائے گی۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
ﱡوَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ ﱠ. (البقرة: 228).
اور وہ عورتیں جنہیں طلاق دی گئی ہے اپنے آپ کو تین حیض تک انتظار میں رکھیں۔
وہ عورت جس کو ماہواری آنا بند ہو گئی ہے، یا عمر کم ہونے کی وجہ سے ابھی آنا شروع ہی نہیں ہوئی، اس کی عدت تین قمری مہینے ہیں۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
ﱡوَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ نِسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ ﱠ . (الطلاق: 4).
اور وہ عورتیں جوتمہاری عورتوں میں سے حیض سے نا امید ہو چکی ہیں، اگر تم شک کرو تو ان کی عدت تین ماہ ہےاور ان کی بھی جنہیں حیض نہیں آیا۔
اگر عورت حاملہ ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
ﱡوَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ﱠ. (الطلاق: 4).
اور جو حمل والی ہیں ان کی عدت یہ ہے کہ وہ اپنا حمل وضع کر دیں۔
والله أعلم بالصواب.
محدث فتوی کمیٹی
1- فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی صاحب حفظہ اللہ
2- فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال صاحب حفظہ اللہ