سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

کیا دریائی گھوڑا حلال ہے؟

  • 2113
  • تاریخ اشاعت : 2024-07-23
  • مشاہدات : 122

سوال

دریائی گھوڑا ذي ناب میں آتا ہے وہ کس دلیل کی بنا پر حلال ہے؟

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

درج ذیل دلائل کی بنا پردریائی گھوڑا حلال ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے:

يَاأَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ (168)

اے لوگو! ان چیزوں میں سے جو زمین میں ہیں حلال، پاکیزہ کھاؤ اور شیطان کے قدموں کی پیروی مت کرو، بے شک وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔

اور فرمایا:

وَقَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ (الأنعام: 119)

حالانکہ بلاشبہ اس نے تمھارے لیے وہ چیزیں کھول کر بیان کردی ہیں جو اس نے تم پر حرام کی ہيں۔

اللہ تعالی نے دریائی گھوڑے کو حرام نہیں قرار دیا لہذا حلال ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے:

أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ (المائدة: 96)

تمھارے لیے سمندر کا شکار حلال کردیا گیا۔

مندرجہ بالا آیت مبارکہ میں سمندر کے شکار کو حلال قراد دیا گیا ہے، اس میں سمندر کا ہر قسم  کا شکار آجاتا ہے چاہے وہ مچھلی ہو یا کوئی اور چیز۔

سیدنا ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے اللہ کے رسول (ﷺ) سے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول! ہم سمندر میں سفر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ (پینے کے لیے) تھوڑا سا پانی لے جاتے ہیں۔ اگر ہم اس سے وضو کرنے لگیں، تو پیاسے رہ جائیں، تو کیا ہم سمندر کے پانی سے وضو کرلیا کریں؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

هُوَ الطَّهُورُ مَاؤُهُ الْحِلُّ مَيْتَتُهُ (سنن أبي داود، الطهارة: 83، سنن ترمذي، أَبْوَابُ الطَّهَارَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: 69) (صحيح)

سمندر کا پانی پاک اوراس کا مردہ حلال ہے۔

مندرجہ بالا حدیث سےثابت ہوتا ہے کہ سمندر کا مردار حلا ل ہے چاہے وہ مچھلی ہو یا کوئی اور چیز۔

ویسے بھی جب خشکی کا گھوڑا حلال ہے تو دریائی گھوڑا تو بالاولیٰ حلال ہوگا۔

والله أعلم بالصواب.

محدث فتوی کمیٹی

تبصرے