الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
انسان اس عورت کو طلاق دے سکتا ہے جو اس کے نکاح میں ہو، اجنبی عورت کو دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا (الأحزاب: 49)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم مؤمن عورتوں سے نکاح کرو، پھر انہیں طلاق دے دو، اس سے پہلے کہ انھیں ہاتھ لگاؤ تو تمھارے لیے ان پر کوئی عدت نہیں، جسے تم شمار کرو، سو انھیں سامان دو اور انھیں چھوڑ دو، اچھے طریقے سے چھوڑنا۔
مند رجہ بالا آیت مبارکہ میں الله تعالیٰ نےطلاق سے پہلے نکاح كا ذكر كيا ہے، اس لیے طلاق دینے کے لیے عورت کا نکاح میں ہونا ضروری ہے۔
سيدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
لا طَلَاقَ قَبْلَ نِكَاحٍ، وَلَا عِتْقَ قَبْلَ مِلْكٍ(سنن ابن ماجه، الطلاق:2048) (صحيح)
نکاح سے پہلے طلاق نہیں اور مالک بننے سے پہلے غلام کا آزاد کرنا (درست) نہیں۔
مندرجہ بالا آیت مبارکہ اور حدیث رسول سے واضح ہوتا ہے کہ نکاح کرنے سے پہلے طلاق واقع نہیں ہو سکتی، اس لیے آپ جب نکاح کریں گے تو آپ کی بیوی کو طلاق واقع نہیں ہو گی۔
والله أعلم بالصواب.