الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جن لفظوں کے ساتھ بیوی کو طلاق دی جاسکتی ہے وہ دو طرح کے ہیں:
1. صریح لفظ: جو طلاق کے معنی میں بالکل واضح ہو جس کا طلاق کے علاوہ کوئی اورمطلب نہیں ہوسکتا۔
2. کنایہ: اس سے مراد ایسا لفظ ہے جو طلاق دینے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور طلاق کے علاوہ کسی اور معنی کو ادا کرنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔
انسان بیوی کو طلاق دینے کے لیے بعض اوقات بالکل واضح لفظ استعمال کرتا ہے اور بعض اوقات ایسا لفظ استعمال کرتا ہے جو طلاق کا معنی بھی دیتا ہے اور اس لفظ کا مطلب طلاق کے علاوہ کوئی اور بھی ہوسکتا ہے۔
سوال میں مذکور ہے کہ آپ کے شوہر نے مختلف اوقات میں درج ذیل جملے کہے ہیں:
’’میرے پاس سے کچھ اور نہ لے لو‘‘، ’’ میرے منہ سے کچھ اور نہ لے لینا‘‘: ان دونوں جملوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ خاوند نے صرف دھمکی دی ہے طلاق نہیں دی۔
’’ باپ کے گھر چلی جاؤ میرے پاس کیوں رہتی ہو‘‘، ’’اتنی نیک بنتی ہو تو میرے پاس کیا کر رہی ہو‘‘: یہ دونوں جملے طلاق کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں ، اگر خاوند کا ان جملوں کو بول کر طلاق دینے کا ارادہ تھا تو طلاق ہو جائے گی۔
والله أعلم بالصواب.
محدث فتوی کمیٹی
1- فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
2- فضیلۃ الشیخ اسحاق زاہد صاحب
3- فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال صاحب حفظہ اللہ