الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی سنتوں اور نوافل کا اہتمام کیا کرتے تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو بھی اس کی ترغیب دیا کرتے تھے، اس لیے انسان کو نوافل کا اہتمام کرنا چاہیے، خاص طور وہ نوافل اور سنتیں جو فرض نماز سے پہلے اور بعد میں ہوتی ہیں کیونکہ نوافل کا اہتمام اللہ تعالی کی محبت کا باعث بنتا ہے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ قَالَ: مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالحَرْبِ، وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ، وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ: كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ، وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا، وَإِنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّهُ، وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِي لَأُعِيذَنَّهُ، وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَيْءٍ أَنَا فَاعِلُهُ تَرَدُّدِي عَنْ نَفْسِ المُؤْمِنِ، يَكْرَهُ المَوْتَ وَأَنَا أَكْرَهُ مَسَاءَتَهُ (صحيح البخاري، الرقاق: 6502)
بےشک اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے: جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اس کے خلاف میری طرف سے اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ جن جن عبادتوں کے ذریعےسے میرا قرب حاصل کرتا ہے ان میں سے کوئی عبادت مجھے اتنی پسند نہیں جس قدر وہ عبادت پسند ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے۔ میرا بندہ نوافل کے ذریعے سے بھی مجھ سے اتنا قریب ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ اگر وہ مجھ سے مانگے تو میں اسے دیتا ہوں۔ میں کسی چیز میں تردد نہیں کرتا جس کو میں کرنے والا ہوتا ہوں، جو مجھے مومن کی جان نکالتے وقت ہوتا ہے، وہ موت کی بوجہ تکلیف پسند نہیں کرتا اور مجھے بھی اسے تکلیف دینا اچھا نہیں لگتا ہے۔
سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
مَا مِنْ عَبْدٍ مُسْلِمٍ يُصَلِّي لِلَّهِ كُلَّ يَوْمٍ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً تَطَوُّعًا، غَيْرَ فَرِيضَةٍ، إِلَّا بَنَى اللهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ، أَوْ إِلَّا بُنِيَ لَهُ بَيْتٌ فِي الْجَنَّةِ قَالَتْ أُمُّ حَبِيبَةَ فَمَا تَرَكْتُهُنَّ مُنْذُ سَمِعْتُهُنَّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ عَنْبَسَةُ فَمَا تَرَكْتُهُنَّ مُنْذُ سَمِعْتُهُنَّ مِنْ أُمِّ حَبِيبَةَ وَقَالَ عَمْرُو بْنُ أَوْسٍ مَا تَرَكْتُهُنَّ مُنْذُ سَمِعْتُهُنَّ مِنْ عَنْبَسَةَ وَقَالَ النُّعْمَانُ بْنُ سَالِمٍ مَا تَرَكْتُهُنَّ مُنْذُ سَمِعْتُهُنَّ مِنْ عَمْرِو بْنِ أَوْسٍ (صحيح مسلم، صلاة المسافرين وقصرها: 728)
جس نے ایک دن اورایک رات میں بارہ رکعات ادا کیں اس کے لئے ان کے بدلے جنت میں ایک گھر بنا دیا جاتا ہے۔‘‘ ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا: جب سے میں نے ان کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے سنا، میں نے انھیں کبھی ترک نہیں کیا۔ عنبسہ نے کہا: جب سے میں نے ان کے بارے میں حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سنا، میں نے انھیں کبھی ترک نہیں کیا۔ عمرو بن اوس نے کہا: جب سے میں نے ان کے بارے میں عنبسہ سے سنا، میں نے انھیں کبھی ترک نہیں کیا۔ نعمان بن سالم نے کہا: جب سے میں نے عمرو بن اوس سے ان کے بارے میں سنا، میں نے انھیں کبھی ترک نہیں کیا۔
1. مندرجہ بالا احادیث اوردیگر کئی احادیث مبارکہ میں سنتیں اور نوافل پڑھنے کی ترغیب دی گئی ہے، چاہے امام ہو یا مقتدی ہر ایک کو سنتوں کا اہتمام کرنا چاہیے، سنتیں فرائض کی محافظ ہیں، قیامت کے روز اگر انسان کے فرائض میں کمی واقع ہو گئی تو اس کمی کو سنتوں اونوافل سے ہی پورا کیا جائے گا ۔
حریث بن قبیصہ کہتے ہیں کہ میں مدینے آیا: میں نے کہا: اے اللہ مجھے نیک اور صالح ساتھی نصیب فرما، چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھنا میسر ہو گیا، میں نے ان سے کہا: میں نے اللہ سے دعا مانگی تھی کہ مجھے نیک ساتھی عطا فرما، تو آپ مجھ سے کوئی ایسی حدیث بیان کیجئے، جسے آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہو، شاید اللہ مجھے اس سے فائدہ پہنچائے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے: ’’قیامت کے روز بندے سے سب سے پہلے اس کی نماز کا محاسبہ ہو گا، اگر وہ ٹھیک رہی تو کامیاب ہو گیا، اور اگر وہ خراب نکلی تو وہ ناکام اور نا مراد رہا، اور اگر اس کی فرض نمازوں میں کوئی کمی ہوگی تو رب تعالیٰ (فرشتوں سے) فرمائے گا: دیکھو، میرے اس بندے کے پاس کوئی نفل نماز ہے؟ چنانچہ فرض نماز کی کمی کی تلافی اس نفل سے کر دی جائے گی، پھر اسی انداز سے سارے اعمال کا محاسبہ ہو گا۔
(سنن ترمذی، ابواب الصلاۃ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: 413) (صحیح)
والله أعلم بالصواب.
محدث فتوی کمیٹی