بحوث علمیہ و افتاء کی مستقل کمیٹی کو ایک سائل کی طرف سے یہ استفسار موصول ہوا ہے کہ ایک مشتعل اونٹ اپنے مالک کو کھانا چاہتا تھا تو مالک نے اسے تیر وغیرہ سے قتل کر دیا مگر تیر ذبح کرنے کی اصل جگہ کے علاوہ کسی اور جگہ لگا تو کیا اسے کھانا حلال ہے؟
حکم شریعت یہ ہے کہ ذبیحہ پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا جائے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’جس چیز پر (زبح کرتے وقت) اللہ کا نام لیا جائے توا سے کھا لیا کرو‘‘۔
نیز فرمایا:
’’اور جس چیز پر اللہ کا نام نہ لیا جائے‘ اسے مت کھائو‘‘۔
اور ’’صحیحین میں حدیث ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’جوچیز خون بہا دے اور اس پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا ہو تو اسے کھا لو‘‘۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کتاب و سنت کی روشنی میں ذبیحہ پر اللہ تعالیٰ کا نام لینا ضروری ہے اور جمہور علماء کا بھی یہی قول ہے لہٰذا مسؤلہ صورت میں اگر ذبح کی جگہ تیر لگانا ممکن نہ ہو تو جہاں سے ممکن ہو اسے زخمی کر دیا جائے‘ مثلاً: ران وغیرہ پر تیر مار دیا جائے جس طرح کہ اس شکار پر تیر پھینکا جاتا ہے جسے پکڑنا ممکن نہ ہو اور وہ اسی طریقہ سے ہی جمہور علماء کے نزدیک مباح ہے۔ اس سلسلہ میں اصل وہ حدیث ہے جو صحیح بخاری و مسلم میں حضرت رافع بن خدیجؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ کے زمانے میں ایک اونٹ بدک کر بھاگ گیا تو ایک آدمی نے تیر مار کر اسے قتل کر دیا تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
’’یہ پالتو جانور بھی غضبناک (مشتعل) ہو جاتے ہیں جس طرح وحسی جانور غضبناک ہوتے ہیں لہٰذا جو پالتو جانور مشتعل ہو کر تم پر حملہ کر دے تو اس کے ساتھ اسی طرح کرو‘‘۔
اگر ایسے اونٹ کو زندہ حالت میں پا لیا جائے توا سے اسکے اصل مقام سے جہاں تک ممکن ہو نحر کیا جائے کیونکہ نبی اکرمﷺ نے شکار کے بارے میں فرمایا ہے:
’’اگر تو اسے زندہ پا لے تو ذبح کر لے‘‘۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب