سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(504) کسی شخص کے اکرام اور تعظیم کیلئے جانور ذبح کرنا

  • 9982
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1803

سوال

(504) کسی شخص کے اکرام اور تعظیم کیلئے جانور ذبح کرنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض عربوں میں یہ عادت ہے کہ وہ بوقت حاجت ایک دوسرے کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ کبھی کبھی طالب رضا بکری لے کر آتا ہے اور اللہ کے نام پر ذبح کرنے کے بعد ہی دروازہ سے داخل ہوتا ہے اور کبھی وہ بکری لے کر آتا ہے تو وہ جس شخص کیلئے بکری لایا ہوتا ہے تو وہ یہ کہتا ہے کہ: ’’عقیرہ‘‘ حرام ہے اور وہ اسے اپنے لیے مخصوص کر لیتا ہے لیکن اسکی رضا کا طالب اس کے اکرام میں ایک دوسری بکری ذبح کر دیتا ہے تو کیا ان دونوں یا ان میں سے کسی ایک کا گوشت کھانا جائز ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

انسان کے کسی دوسرے کیلئے بکری وغیرہ زبح کرنے سے اگر مقصود اس کی عزت افزائی ہے کہ وہ خود بھی اور اس کے رفقاء بھی اسے کھائیں‘ نیز جسے بھی ان کے ساتھ کھانے کی دعوت دی جائے‘ وہ بھی شریک ہو جائے تو یہ جائز ہے بلکہ صحیح احادیث نے اس کی ترغیب بھی دی ہے‘ چنانچہ حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی حدیث میں ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

«مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ » ( صحيح بخاري)

’’جو شخص اللہ تعالیٰ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہئے کہ اپنے مہمان کی عزت کرے‘‘۔

اسی طرح ابو شریح کعبیؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

«مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ، جَائِزَتُهُ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ، وَالضِّيَافَةُ ثَلاَثَةُ أَيَّامٍ، فَمَا بَعْدَ ذَلِكَ فَهُوَ صَدَقَةٌ، وَلاَ يَحِلُّ لَهُ أَنْ يَثْوِيَ عِنْدَهُ حَتَّى يُحْرِجَهُ » ( صحيح بخاري)

’’جو شخص اللہ تعالیٰ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو‘ اسے چاہئے کہ اپنے مہمان کی عزت کرے‘ اس کا انعام ایک دن رات ہے اور مہمان نوازی تین دن اور پھر اس کے بعد صدقہ ہے‘ کسی کیلئے یہ حلال نہیں کہ وہ کسی کے پاس اس قدر قیام کرے کہ اسے مشقت میں ڈال دے‘‘۔

کبھی ذبح کرنے سے مقصود محض تعظیم و تکریم ہوتی ہے خواہ بعد میں ذبیحہ کھانے کے لئے پیش کیا جائے یا نہیں‘ تو یہ جائز نہیں بلکہ یہ شرک اور موجب لعنت ہے کیونکہ یہ بھی لغیراللہ کے عموم میں داخل ہے۔ علیؓ سے روایت ہے:

«حَدَّثَنِي (رسول الله صلي الله عليه وسلم)  بِكَلِمَاتٍ أَرْبَعٍ، قَالَ: فَقَالَ: مَا هُنَّ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ؟ قَالَ: قَالَ: «لَعَنَ اللهُ مَنْ لَعَنَ وَالِدَهُ، وَلَعَنَ اللهُ مَنْ ذَبَحَ لِغَيْرِ اللهِ، وَلَعَنَ اللهُ مَنْ آوَى مُحْدِثًا، وَلَعَنَ اللهُ مَنْ غَيَّرَ مَنَارَ الْأَرْضِ » ( صحيح مسلم)

’’رسول اللہﷺ نے مجھے چار باتیں ارشاد فرمائیں (۱) جو اپنے والدین پر لعنت کرے‘ اللہ تعالیٰ اس پر لعنت فرمائے اور (۲) جو غیر اللہ کے لئے ذبح کرے‘ اللہ تعالیٰ اس پر لعنت فرمائے (۳) جو کسی بدعتی کو ٹھکانا دے‘ اللہ تعالیٰ اس پر بھی لعنت فرمائے (۴) اور جو زمین کی حدود کو مٹائے‘ اللہ اس پر بھی لعنت فرمائے‘‘۔

لہٰذا اس طرح کے ذبیحہ کو کھانا جائز نہیں ہوگا خواہ ذبح کرنے والا اس پر اللہ تعالیٰ ہی کا نام کیوں نہ لے کیونکہ اعمال کا انحصار نیتوں پر ہے اور ’’عقیرہ‘‘ کی تقدیم سے اس کا مقصود‘ غیر اللہ کی تعظیم اور خالصتاً اس کی تکریم ہے‘ نہ کہ اس کے گوشت سے کھانا مقصود ہے اگر وہ زندہ جانور پیش کرے اور مسترضی اسے لے لے اور مہمانوں کیلئے ذبح کر دے یا مہمانوں کیلئے کسی اور جانور کو ذبح کر دے تو اس طرح کے جانور کو کھانا جائز ہے کیونکہ اسے اس کی تعظیم کیلئے ذبح نہیں کیا گیا۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج3ص461

محدث فتویٰ

تبصرے