سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(492) درآمد شدہ گوشت کا حکم!

  • 9970
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1258

سوال

(492) درآمد شدہ گوشت کا حکم!
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اس گوشت کے بارے میں کیا حکم ہے جو منجمد حالت میں باہر سے منگوایا جاتا ہے خصوصاً فروزن چکن کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وہ گوشت جو اہل کتاب یعنی یہودو نصاریٰ کے پاس سے آئے‘ اس کے بارے میں اصل یہ ہے کہ وہ حلال ہے‘ اسی طرح جو گوشت اسلامی ملکوں سے منگوایا جائے‘ اس کے بارے میں بھی اصل یہی ہے کہ وہ حلال ہے‘ خواہ ہمیں یہ معلوم نہ ہو کہ انہوں نے جانور کو کس طرح ذبح کیا تھا اور اس پر اللہ کا نام بھی لیا تھا یا نہیں‘ کیونکہ اصول یہ ہے کہ جو فعل اپنے اہل سے واقع (صادر) ہو صحیح ہوتا ہے الایہ کہ واضح ہو جائے کہ وہ صحیح سلامت نہیں ہے۔

اس اصل کی دلیل وہ روایت ہے جو صحیح بخاری میں حضرت عائشہؓ سے مروی ہے:

«إِنَّ قَوْمًا يَأْتُونَا بِاللَّحْمِ، لاَ نَدْرِي: أَذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ أَمْ لاَ؟ فَقَالَ: «سَمُّوا عَلَيْهِ أَنْتُمْ وَكُلُوهُ»- (صحيح بخاري)

O دیکھئے: جامع الترمذی الجنائز باب ماجاء فی الطعام یصنع لاہل المیت‘ حدیث ۸۹۹ وسنن ابی دائود الجنائز باب صنعۃ الطعام لاھل المیت‘ حدیث ۲۳۱۳

’’کچھ لوگوں نے نبی اکرمﷺ کی خدمت میں یہ عرض کیا کہ کچھ لوگ ہمارے پاس گوشت لے کر آتے ہیں مگر ہمیں معلوم نہیں ہوتا کہ اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہے یا نہیں؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ تم خود اللہ کا نام لے لو اور اسے کھا لو‘‘۔

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ’’(یہ سوال ان لوگوں کے بارے میں تھا) جو کفر کو نئے نئے چھوڑ کر آئے تھے‘‘۔

یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جب کوئی فعل اس کے اہل کی طرف سے واقع ہو تو پھر ہمارے لیے یہ لازم نہیں ہے کہ ہم یہ سوال کریں کہ کیا اسے صحیح طریقے سے سرانجام دیا گیا ہے یا نہیں؟

اس اصل کی بنیاد پر جو گوشت ہمارے پاس اہل کتاب کے پاس سے آئے‘ وہ حلال ہے اور اس کے بارے میں سوال یا کرید کرنا لازم نہیں ہے لیکن اگر یہ واضح ہو جائے کہ یہ غیر صحیح طریقے سے ذبح کیا ہوا ہے تو پھر ہم اسے نہیں کھائیں گے کیونکہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے:

«مَا أَنْهَرَ الدَّمَ، وَذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ فَكُلُوهُ، لَيْسَ السِّنَّ وَالظُّفُرَ، وَسَأُحَدِّثُكُمْ عَنْ ذَلِكَ: أَمَّا السِّنُّ فَعَظْمٌ، وَأَمَّا الظُّفُرُ فَمُدَى الحَبَشَةِ  - ( صحيح بخاري)

’’جو چیز بھی خون بہا دے اور اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو کھا لو بشرطیکہ اسے دانت یا ناخن کے ساتھ ذبح نہ کیا گیا ہو کیونکہ دانت ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھری ہے‘‘۔

انسان کو چاہیے کہ دین میں غلو سے کام نہ لے اور ایسی چیزوں کے بارے میں کرید نہ کرے‘ جن کے بارے میں کرید کرنا لازم نہیں ہے لیکن اگر خرابی یقینی اور واضح ہو تو پھر اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے اور اگر شک و تردد ہو کہ معلوم نہیں اسے صحیح طریقے سے ذبح کیا گیا ہے یا نہیں تو اس صورت میں ہمارے سامنے دو اصول ہیں۔ اصل اول کہ یہ صحیح سلامت ہے اور اصل دوم: یہ کہ پرہیزگاری کا ثبوت دیتے ہوئے اسے نہ کھایا جائے تو پھر بھی کوئی حرج نہیں اور اگر کھا لے تو پھر بھی کوئی حرج نہیں۔

گویا اس مسئلہ کی تین حالتیں ہیں (۱) ہمیں معلوم ہو کہ جانور کو صحیح طریقے سے ذبح کیا گیا ہے (۲) ہمیں معلوم ہو کہ جانور کو صحیح طریقے سے ذبح نہیں کیا گیا تو ان دو حالتوں کا حکم تو ہمیں معلوم ہے (۳) یہ کہ ہمیں شک ہو اور یہ معلوم نہ ہو کہ جانور کو صحیح طریقے سے ذبح کیا گیا ہے یا نہیں؟ تو اس حالت میں حکم یہ ہے کہ ذبیحہ حلال ہے اور ہمارے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ ہم یہ تحقیق کریں کہ اسے کس طرح ذبح کیا گیا ہے؟ اور کیا اس پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا ہے یا نہیں بلکہ سنت سے بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ افضل یہ ہے کہ اس کے بارے میں سوال اور تحقیق نہ کی جائے کیونکہ نبی اکرمﷺ سے جب لوگوں نے یہ عرض کیا کہ ہمیں یہ معلوم نہیں کہ اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہے یا نہیں؟ تو آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ ان سے پوچھ لو کہ انہوں نے اللہ کا نام لیا ہے یا نہیں بلکہ یہ فرمایا:

«سموا عليه وأنتم وكلوه» ( صحيح بخاري)

’’تم اللہ کا نام لے لو اور کھا لو‘‘۔

اور یہ نام لینے کا جو نبیﷺ نے حکم دیا ظاہر ہے کہ اس سے مراد بوقت ذبح بسم اللہ پڑھنا نہیں ہے کیونکہ ذبح کا عمل تو اس سے پہلے سرانجام پا چکا ہے‘ لہٰذا اس سے مراد سے کھاتے وقت بسم اللہ پڑھنا ہے کیونکہ حکم شریعت یہ ہے کہ کھاتے وقت بسم اللہ پڑھی جائے بلکہ راجح قول کے مطابق کھاتے وقت بسم اللہ پڑھنا ضروری ہے کیونکہ نبی اکرمﷺ نے اس کا حکم دیا ہے اور پھر اس لیے بھی کہ اگر انسان بسم اللہ نہ پڑھے تو اس کے کھانے پینے میں شیطان شریک ہو جاتا ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج3ص453

محدث فتویٰ

تبصرے