سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(487) تارک نماز کے ذبیحہ کے بارے میں حکم

  • 9965
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1124

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر کوئی شخص ذبح کرے جو تارک نماز ہو تو کیا نمازی کیلئے اس ذبیحہ کو کھانا جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز ارکان خمسہ میں سے شہادتین کے بعد سب سے بڑا رکن ہے‘ جو اس کے وجوب کا انکار کرتے ہوئے ترک کرے تو اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ وہ کافر ہے اور جو شخص محض سستی و کوتاہی کی وجہ سے اسے ترک کرے تو وہ بھی علماء کے صحیح قول کی روشنی میں کافر ہے اور اس سلسلہ میں دلیل وہ حدیث ہے جو صحیح مسلم میں ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

«بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ وَالْكُفْرِ تَرْكُ الصَّلَاةِ » ( صحيح مسلم)

’’بندے اور شرک و کفر کے درمیان فرق ترک نماز سے ہے‘‘۔

امام احمدؒ نے ’’مسند‘‘ میں اور اہل سنن نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:

«العَهْدُ الَّذِي بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمُ الصَّلاَةُ، فَمَنْ تَرَكَهَا فَقَدْ كَفَرَ » ( سنن الترمذي)

’’ہمارے اور ان کے درمیان جو عہد ہے وہ نماز ہے‘ جو اسے ترک کر دے تو اس نے کفر کیا‘‘۔

لہٰذا جس شخص کے بارے میں آپ نے سوال کیا ہے کہ اگر وہ جوب نماز کے انکار کی وجہ سے تارک ہے تو اس کا ذبیحہ بالاجماع نہیں کھایا جا سکتا اور اگر وہ محض سستی اور کوتاہی کی وجہ سے تارک نماز ہے تو ظاہر قول کے مطابق وہ کافر ہی ہے‘ لہٰذا سے کھانا جائز نہیں جسے اس نے خود اپنے ہاتھ سے ذبح کیا ہو کیونکہ و ہ مرتد ہے اور مرتد کا ذبیحہ نہیں کھایا جا سکتا جیسا کہ علماء کرامؒ نے صراحت فرمائی ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج3ص450

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ