ان ذبیحوں کے بارے میں کیا حکم ہے جو ایسے ممالک کے بازاروں میں فروخت ہوتے ہیں‘ جن کے باشندے شرک سے محفوظ نہیں ہیں؟ اگرچہ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ مسلمان ہیں لیکن جہالت اور بدعات و خرافات کی کثرت کی وجہ سے وہ شرک تک بھی کر گزرتے ہیں جیسے کہ فرقہ تیجانیہ ہے مگر غلبہ جہالت اور بدعی جماعتوں کے غلبہ کی وجہ سے وہ شرک بھی کرتے ہیں؟
اگر بات اسی طرح ہے جس طرح سوال میں مذکور ہے کہ ذبح کرنے والا اسلام کا مدعی تو ہے مگر اس کے بارے میں یہ معلوم ہے کہ اس کا تعلق ایک ایسی جماعت سے ہے جو غیر اللہ سے ایسے امور پر مدد طلب کرتی ہے جن کے دفع کرنے پر اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی قادر نہیں اور فوت شدگان مثلاً حضرات انبیاء علیہ السلام سے مدد مانگتی ہے نیز ان شخصیتوں سے بھی مدد مانگتی ہے جن کو یہ اپنے عقیدہ کے مطابق والی سمجھتی ہے تو ایسے شخص کا ذبیحہ مشرکوں‘ بت پرستوں اور لات و عزی و منات و ودوسواع و یغوث و یعوق اور نسر کے پجاریوں کے ذبیحہ جیسا ہے کسی سچے مسلمان کیلئے اسے کھانا حلال نہیں کیونکہ یہ مردار ہے اور ذبح کرنے والا انہی مشرکوں میں سے ہے کیونکہ وہ اس اسلام سے مرتد ہے جس کا وہ دعوے دار ہے اس لیے کہ وہ ان امور میں بھی غیر اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے جن پر اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی قادر نہیں مثلاً گمراہ کو ہدایت دینا اور مریض کو شفا دینا وغیرہ۔ یہ لوگ مردوں کو یا ان لوگوں کو جو غائب ہونے کی وجہ سے مردوں کے حکم میںہیں‘ پکارتے ہیں کیونکہ جہالت کی وجہ سے یہ ان کے بارے میں عقیدہ رکھتے ہیں کہ انہیں پکارنے سے برکت حاصل ہوتی ہے نیز ان کے بارہ میں یہ عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ ان کو وہ خواص حاصل ہیں جن کی وجہ سے وہ فریاد کرنے والوں کی دعائوں کو سنتے‘ ان کی تکلیف کو دور کرتے اور انہیں نفع پہنجاتے ہیں خواہ دع اکرنے والا مشرق کے انتہائی کنارے پر اور جس کو پکارا جا رہا ہو مغرب کے انتہائی کنارے میں ہو۔
ان ملکوں میں رہنے والے اہل سنت پر یہ واجب ہے کہ ان مشرکوں کو سمجھائیں اور انہیں توحید خالص کی دعوت دیں‘ اگر وہ قبول کر لیں تو الحمدللہ اور اگر نہ کریں تو پھر حقیقت حال بیان کر دینے کے بعد ان کیلئے کوئی عذر نہیں ہوگا۔
اگر ذبح کرنے والے کا حال معلوم نہ ہو لیکن اس کے ملک کے اکثر لوگ دعویٰ اسلام کے باوجود مردوں سے فریاد کرتے ہوں اور ان کی طرف رجوع کرتے ہوں تو اس کے ذبیحے کا حکم بھی اکثریت کے ذبیحے کا ہوگا اور اسے کھانا حلال نہیں ہوگا۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب