سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(130) قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی طرف منہ یا پشت نہیں کرنی چاہیے

  • 996
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1521

سوال

(130) قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی طرف منہ یا پشت نہیں کرنی چاہیے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی طرف منہ یا پشت کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

اس مسئلہ میں اہل علم کے کئی اقوال ہیں، جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: بعض اہل علم کا مذہب ہے کہ قضائے حاجت کے وقت غیر عمارت میں (کھلی جگہ) قبلہ کی طرف منہ اور پشت کرنا حرام ہے اور انہوں نے حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 "لا تَسْتَقْبِلُوا الْقِبْلَة بغائط ولابولَ وَلَا تَسْتَدْبِرُوہَا وَلَکِنْ شَرِّقُوا أَوْغَرِّبُوا))( صحیح البخاري: الوضوء، باب لا تسقبل القبلة ببول ولا غائط… ح:۱۴۴ وصحیح مسلم، الطہارۃ، باب الاستطابة، ح: ۲۶۴ واللفظ له)

’’جب تم قضائے حاجت کے لیے جاؤ تو بول وبراز کے وقت قبلہ کی طرف منہ اور پشت نہ کرو بلکہ مشرق یا مغرب کی طرف رخ کرو۔‘‘[1]

حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب ہم شام گئے تو دیکھا کہ بیت الخلا قبلہ رخ بنائے گئے تھے۔ ہم جب ان سے باہر نکلتے تو اللہ تعالیٰ سے استغفار کر لیتے تھے۔ اہل علم کے اس گروہ نے ابوایوب رضی اللہ عنہ کی اس روایت کو اسے غیر عمارت پر محمول کیا ہے، البتہ عمارت کے اندر رخ اور پشت کرنا جائز ہے کیونکہ حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہ میں ہے:

((رقَیْت یوماُعلیِ بَیْتِ حَفْصَةَ فَرَأَیْتُ النبیِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْضِی حَاجَتَہُ ِ مُسْتَقْبِلَ الشَّأْم مستدبرالکعبةِ))( صحیح البخاري، فرض الخمس، باب ماجاء فی بیوت ازواج النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، ح:۳۱۰۲۔)

’’میں حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر کے اوپر چڑھا تو میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قبلہ کی طرف پشت کیے اور شام کی طرف منہ کیے قضائے حاجت کر رہے تھے۔‘‘

بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ عمارت یا غیر عمارت کسی حال میں بھی قبلہ کی طرف منہ یا پشت کرنا جائز نہیں ہے، انہوں نے حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا حدیث سے استدلال کیا ہے۔ اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث کے انہوں نے درج ذیل جوابات دیے ہیں:

۱۔      حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما کو ممانعت سے پہلے کے زمانہ پر محمول کیا جائے گا۔۲۔ممانعت راجح ہے کیونکہ ممانعت اصل کو بیان کر رہی ہے اور وہ ہے جواز (اور اصل کے مطابق بیان زیادہ بہتر ہے)۔۳۔حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث قولی ہے اور حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما فعلی ہے فعل کو قول کے خلاف پیش نہیں کیا جا سکتا کیونکہ فعل میں خصوصیت، نسیان اور دیگر کئی احتمال ہو سکتے ہیں۔

میرے نزدیک اس مسئلہ میں راجح قول یہ ہے کہ کھلی فضا میں قبلہ کی طرف منہ اور پشت کرنا حرام ہے اور عمارت کے اندر پشت کرنا جائز ہے، منہ کرنا جائز نہیں کیونکہ منہ نہ کرنے کے بارے میں ممانعت مطلق ہے اس میں کوئی تخصیص وارد نہیں ہوئی ہے اور پشت کرنے کے بارے میں ممانعت فعل کے ساتھ مخصوص ہے۔ علاوہ ازیں منہ کرنے کی نسبت پشت کرنا زیادہ خفیف ہے، اسی لیے انسان جب کسی عمارت کے اندر ہو تو اس بارے میں تخفیف کر دی گئی ہے لیکن افضل یہی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو، قبلہ کی طرف پشت بھی نہ کی جائے۔


[1]              مشرق یا مغرب کی طرف رخ کرنے کا یہ حکم مدینہ اور اس کے مضافات اور شام وغیرہ کے لیے مخصوص ہے جو مکہ مکرمہ کے شامل میں ہیں بلکہ مکہ مکرمہ کے جنوب میں واقع یمن وغیرہ کے لیے بھی یہی حکم ہے، لیکن مکہ مکرمہ کے مشرق یا مغرب میں واقع مقامات، مثلاً: پاکستان، بھارت، چین، شمالی افریقہ اور امریکہ وغیرہ کے لیے قبلہ کا رخ شرقاً یا غرباً ہونے کے باعث قضائے حاجت کے وقت شرقاً غرباً بیٹھنا ممنوع ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ196

محدث فتویٰ

تبصرے