ف۔ت نے جرمنی سے دو سوال ارسال کیے ہیں ایک تو یہ کہ یورپ اور امریکہ کے اکثر ملکوں کے عیسائی مذبحوں میں بھیڑ بکریوں کو بجلی کے جھٹکوں سے ذبح کیا جاتا ہے اور مرغیوں کو ذبح کرتے وقت گردن کو اڑا دیا جاتا ہے تو ایسے ذبیحوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟ دوسرے سوال میں انہوں نے سور کی چربی کے بارے میں پوچھا ہے؟
پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ کتاب اللہ سنت مطہرہ اور مسلمانوں کے اجماع سے یہ بات ثابت ہے کہ اہل کتاب کا کھانا حلال ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’آج تمہارے لیے سب پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئی ہیں اور اہل کتاب کا کھانا بھی تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کیلئے حلال ہے‘‘۔
یہ آیت کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اہل کتاب کا کھانا حلال ہے اور کھانے سے مراد ان کے ذبیحے ہیں‘ اس اعتبار سے وہ مسلمانوں سے اعلیٰ نہیں ہیں بلکہ اس باب میں وہ مسلمان ہی کی طرح ہیں لیکن اگر یہ معلوم ہو جائے کہ انہوں نے جانور کو اس طرح ذبح کیا ہے کہ وہ مردار کے حکم میں ہے تو پھر اسے کھانا حرام ہوگا۔ اگر کوئی مسلمان اس طرح کرے تو اس کا حکم بھی یہی ہوگا کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’تم پر مردار (طبعی موت مرا ہوا) اور (بہتا ہوا) لہو اور سور کا گوشت اور جس چیز پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکاراجائے اور جو جانور گلا گھٹ کر مر جائے اور جو چوٹ لگ کر مر جائے اور جو گر کر مر جائے اور جو سینگ لگ کر مر جائے‘ یہ سب حرام ہیں‘‘۔
ہر مسلمان یا کتابی کے ذبح کرنے کا وہ طریقہ جو ذبیحہ کو گلا گھٹ کر مر جانے والے‘ یا چوٹ لگ کر مر جانے والے یا گر کر مر جانے والے یا سینگ لگ کر مر جانے والے جانور کے حکم میں کر دے تو اس سے جانور حرام ہو کر ان مرداروں میں شمار ہوتا ہے جو اس آیت میں مذکور ہیں۔ اس آیت سے ارشاد باری تعالیٰ:
’’اور اہل کتاب کا کھانا بھی تم کو حلال ہے‘‘۔
کے عموم کی تخصیص ہو جاتی ہے‘ نیز اس آیت سے ان دلائل کی بھی تخصیص ہو جاتی ہے جن سے مسلمان کا وہ ذبیحہ بھی حلال معلوم ہوتا ہے جو اس طرح سے ہو کہ ذبیحہ مردہ کے حکم میں ہو گیا ہو۔ آپ نے جو یہ کہا ہے کہ عیسائی مذبحوں میں بھیڑ بکریوں کوبجلی کے جھٹکے سے اور مرغیوں کو گردن اڑا کر ذبح کیا جاتا ہے تو اس سلسلہ میں ہم نے بعض باخبر لوگوں سے پوچھا کیونکہ آپ نے اسے وضاحت سے نہیں لکھا تھا تو انہوں نے ہمیں بتایا ہے کہ بجلی کے جھٹکے سے اسطرح ذبح کیا جاتا ہے کہ شرعی طریقے سے ذبح کیے بغیر بجلی کا جھٹکا دے کر جانور کی روح نکال دی جاتی ہے اور مرغی کی گردن ایک ہی وار سے اڑا دی جاتی ہے اگر آپ بھی اس سے یہی مراد ہے تو جس جانور کو اس طرح بجلی کے جھٹکے سے مارا جائے وہ مردار ہوگا کیونکہ اسے اس شرعی طریقے کے مطابق ذبح نہیں کیا گیا جس میں گلے کی رگیں کاٹی جاتی ہیں اور خون بہایا جاتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے:
’’جو خون بہا دے اور جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو اسے کھا لو بشرطیکہ اسے دانت یا ناخن کے ساتھ نہ قتل کیا گیا ہو‘‘۔
البتہ مذکور طریقے سے مرغی کی گردن اڑا کر ذبح کرنا جائز ہے کیونکہ یہ شرعی ذبح پر مشتمل ہے کہ اس سے گلے کی تمام رگیں کٹ جاتی ہیں اور خون بھی بہہ جاتا ہے اور اگر بجلی کے کرنٹ اور جھٹکے سے ذبح کرنے سے آپ کی کوئی اور مراد ہے تواس کی وضاحت فرمائیں تاکہ اسکی روشنی میں جواب دیا جا سکے۔ اللہ ہم سب کو حق کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آپ کا دوسرا سوال جو سور کی چربی کے بارے میں ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ائمہ اربعہ اور اکثر اہل علم گوشت کی طرح سور کی چربی کو بھی حرام قرار دیتے ہیں۔ امام قرطبیؒ اور علامہ شوکانیؒ فرماتے ہیں کہ اس پر تمام امت کا اجماع ہے کیونکہ جب اس کے اشرف حصہ کی حرمت پر نص موجود ہے توا س کا ادنیٰ حصہ بالاولیٰ حرام ہوگا اور پھر اس لیے بھی کہ بوقت اطلاق چربی گوشت ہی کے تابع ہوتی ہے لہٰذا ممانعت و حرمت اسے بھی شامل ہوگی اور پھر یہ گوشت کی پیدائش کے وقت ہی سے اس کے ساتھ لگی ہوتی ہے لہٰذا اس کے استعمال سے بھی یقینا وہ نقصان ہوگا جو اس کے گوشت کے استعمال سے ہوگا اور پھر رسول اللہﷺ کی بہت سی احادیث میں وارد ہے جو اس امر پر دلالت کناں ہیں کہ سور کے جسم کے تمام اجزاء حرام ہیں اور سنت قرآن کی تفسیر اور اس کے معنی کی وضاحت کرتی ہے ۔ ہمارے علم کے مطابق کسی نے بھی اس مسئلہ میں اختلاف نہیں کیا اور اگر بالفرض کسی نے اختلاف کیا بھی ہو تو وہ شاذ ہے اور دلائل اور اجماع کے خلاف ہے لہٰذا وہ ناقابل التفات ہے۔ اس سلسلہ میں ہمیں سنت سے بھی رہنمائی ملتی ہے‘ چنانچہ امام بخاری و مسلمؒ نے ’’صحیحین‘‘ میں حضرت جابرؓ سے یہ حدیث روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فتح مکہ کے دن خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’بے شک اللہ اور اس کے رسول نے تم پر ’’شراب‘‘ مردار‘ خنزیر اور بتوں کی بیع کو حرام قرار دیا ہے‘‘۔
تو اس حدیث میں سور کو شراب اور مردار کا ہم پلہ قرار دیا گیا ہے جس طرح کہ شراب اور مردار کی بیع کو مطلقاً حرام قرار دیا ہے لہٰذا اس نص سے بھی یہ صاف صاف معلوم ہوا کہ سور سارے کا سارا حرام ہے اور اس کی حرمت پر بہت سی احادیث دلالت کرتی ہیں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب