سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(477) سور کے گوشت پر پلنے والی مرغی کھانا

  • 9955
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2305

سوال

(477) سور کے گوشت پر پلنے والی مرغی کھانا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بحوث علمیہ و افتاء کی مستقل کمیٹی کو محلہ بنی مراد کے ایک مسلمان نوجوان کی طرف سے یہ سوال موصول ہوا ہے جو کمیٹی کے چیئرمین کو مکتوب نمبر ۶۸۲ مورخہ ۰۱۔۲۔۱۰۴۱ھ موصول ہوا ہے اور اس میں یہ لکھا ہے کہ ’’یہ لوگ مرغیوں کو مختلف غذائیں کھلاتے ہیں‘ جن میں مردہ جانوروں کے گوشت بلکہ سور کا گوشت بھی ہوتا ہے‘ تو اس گوشت پر پلنے والی مرغی حلال ہے یا حرام؟ اور اگر حرام ہے تو اس کے انڈوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کمیٹی نے اس سوال کا حسب ذیل جواب دیا:

مرغی کی غذا کے سلسلہ میں اگر امر واقع اسی طرح ہے جس طرح سوال میں ذکر کیا گیا ہے تو اس کے گوشت اور انڈے کھانے کے بارے میں علماء میں اختلاف ہے۔ امام مالکؒ اور ایک جماعت کا یہ قول ہے کہ اس کا گوشت اور انڈے کھانا جائز ہے کیونکہ ناپاک غذائیں گوشت اور انڈوں مین تبدیل ہو کر پاک ہو جاتی ہیں اور ایک جماعت کا یہ مذہب ہے جن میں ثوری‘ شافعی اور امام احمدؒ بھی ہیں‘ کہ ایسے جانوروں کا گوشت اور انڈے کھانا اور ان کا دودھ پینا حرام ہے۔ اس سلسلہ میں ایک قول یہ بھی ہے کہ اگر ان کی اکثر خوراک نجاست پر مبنی ہو تو یہ جلالہ (گندگی خور) ہیں لہٰذا ان کا گوشت نہ کھایا جائے اور اگ ران کی اکثر خورکا پاک ہو تو پھر ان کا گوشت کھا لیا جائے۔ ایک جماعت کا یہ قول ہے کہ انہیں کھانا حرام ہے کیونکہ امام احمد‘ ابو دائود‘ نسائی اور ترمذیؒ نے حضرت ابن عباسؓ سے روایت کیا ہے:

«أن النبي صلي الله عليه وسلم نهي عن لبن الجلالة»  ( سنن أبي داؤد)

’’نبیﷺ نے جلالہ کے دودھ (پینے) سے منع فرمایا ہے‘‘۔

اس حدیث کو امام ترمذی اورابن دقیق العبد ؒ نے صحیح قرار دیا ہے۔ نیز امام احمد‘ ابو دائود‘ ترمذی اور ابن ماجہؒؒ نے حضرت ابن عمرؓ سے روایت کیا ہے:

«نهي رسول الله صلي الله عليه وسلم عن أكل الجلالة وألبانها» ( سنن أبي داؤد)

’’رسول اللہﷺ نے جلالہ کے کھانے اور اس کا دودھ پینے سے منع فرمایا ہے‘‘۔

جلالہ اس جانور کو کہتے ہیں جو براز (پاخانہ) اور دیگر نجاستوں کو کھائے۔ ان اقوال میں سے دوسرا قول راجح ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج3ص436

محدث فتویٰ

تبصرے