سور کے گوشت کھانے کی حرمت میں کیا حکمت ہے؟
بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز کا اپنے علم سے احاطہ کیے ہوئے ہے اور اس کی رحمت‘ حکمت اور عدل ہر چیز سے وسیع ہے وہ اپنے بندوں کو ان کاموں کا حکم دیا ہے جو ان کیلئے دنیا و آخرت میں موجب سعادت ہیں۔ اس نے ان کیلئے ان پاک چیزوں کو حلال قرار دیا ہے جو ان کیلئے منفعت بخش ہیں اور ان ناپاک چیزوں کو حرام قرار دیا ہے جو ان کیلئے ضرر رساں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے خنزیر کو حرام قرار دیا اور فرمایا کہ یہ ناپاک ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’(اے پیغمبر!) کہہ دیجئے کہ جو احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں‘ میں ان میں کوئی چیز جسے کھانے والا کھائے حرام نہیں پاتا‘ بجز اس کے کہ وہ مردار جانور ہو یا بہتا ہوا لہو یا سور کا گوشت کہ یہ سب ناپاک ہیں یا کوئی گناہ کی چیز ہو کہ اس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو‘‘۔
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ سور خبیث جانوروں میں سے ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ کی شان میں فرمایا ہے:
’’اور وہ ناپاک چیزوں کو ان پر حرام ٹھہراتے ہیں‘‘۔
مشاہدہ سے ثابت ہے کہ اس کی غذا گندگی اور ناپاک چیزیں ہیں‘ گندگی اور ناپاک چیزوں کو یہ بہت شوق اور رغبت سے کھاتا ہے اور گندی جگہوں ہی پر بسیرا کرتا ہے۔ باخبر لوگوں کا کہنا ہے کہ سور کا گوشت کھانے سے پیٹ میں کیڑے پیدا ہوتے ہیں۔ نیز اسے کھانے سے غیرت وحمیت اور پاک دامنی اور عفت میں کمی آ جاتی ہے۔ علاوہ ازیں اس کے او ربھی بہت سے نقصانات ہیں۔ مثلاً یہ کہ اسے ہضم کرنا بہت مشکل ہے۔ یہ نظام ہضم کیلئے معاون رطوبتوں کو پیدا ہونے سے بھی روکتا ہے۔ باخبر لوگوں کی یہ باتیں اگر صحیح ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اسے نقصان دہ اور ناپاک ہونے کی وجہ سے حرام قرار دیا گیا ہی اور اگر یہ صحیح نہیں ہیں تو عقل مند کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی اس خبر پر یقین رکھے کہ یہ ناپاک ہے اور اس بات پر ایمان رکھے کہ اسے کھانا حرام ہے اور اس کی حرمت میں جو حکمتیں پنہاں ہیں انہیں اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دے کہ وہ ذات گرامی جس نے اسے پیدا کیا‘ وہی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ اس نے اس میں کیا کچھ ودیعت کیا ہے۔
’’بھلا جس نے پیدا کیا وہ بے خبر ہے؟ وہ تو پوشیدہ باتوں کا جاننے والا اور ہر چیز سے آگاہ ہے‘‘۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب