سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(467) کچھوے‘ مگرمچھ اور خارپشت کے بارے میں کیا حکم ہے؟

  • 9945
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 5210

سوال

(467) کچھوے‘ مگرمچھ اور خارپشت کے بارے میں کیا حکم ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا درج ذیل حیوانات: کچھوے‘ دریائی گھوڑے‘ مگر مچھ اور خارپشت کا کھانا حلال ہے یا حرام؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

خارپشت حلال ہے کیونکہ یہ حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ کے عموم میں داخل ہے:

﴿قُل لا أَجِدُ فى ما أوحِىَ إِلَىَّ مُحَرَّ‌مًا عَلىٰ طاعِمٍ يَطعَمُهُ إِلّا أَن يَكونَ مَيتَةً أَو دَمًا مَسفوحًا أَو لَحمَ خِنزيرٍ‌ فَإِنَّهُ رِ‌جسٌ أَو فِسقًا أُهِلَّ لِغَيرِ‌ اللَّهِ بِهِ ۚ...﴿١٤٥﴾... سورة الانعام

’’(اے پیغمبر!) کہہ دیجئے کہ جو احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں میں ان میں کوئی چیز جسے کھانے والا کھائے حرام نہیں پاتا بجز اس کے کہ وہ مردار جانور ہو یا بہتا ہوا لہو یا سور کا گوشت‘ کہ یہ سب ناپاک ہیں یا کوئی گناہ کی چیز ہو کہ اس پر اللہ کی سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو‘‘۔

اور پھر راس لیے بھی کہ اصل جواز ہے الایہ کہ دلیل سے عدم جواز ثابت ہو‘ کچھوے کے بارے میں علاء کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ اسے کھانا جائز ہے خواہ ذبح نہ بھی کیا جائے کیونکہ یہ بھی ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿أُحِلَّ لَكُم صَيدُ البَحرِ‌ وَطَعامُهُ...﴿٩٦﴾... سورة المائدة

’’تمہارے لیے دریا کی چیزوں کا شکار اور ان کا کھانا حلال کر دیا گیا ہے‘‘۔

میں داخل ہے‘ نیز نبیﷺ نے بھی دریا کے بارے میں فرمایا ہے:

«هوا الطهور ماؤه الحل ميتته» (سنن أبي داؤد)

’’اس کا پانی پاک اور اس میں مرا ہوا جانور حلال ہے‘‘۔

لیکن زیادہ احتیاط اس میں ہے کہ اسے ذبح کر لیا جائے تاکہ اختلاف سے بچا جا سکے۔ مگر مچھ کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ مذکورہ آیت و حدیث کے عموم کے پیش نظر اسے بھی مچھلی کی طرح کھایا جا سکتا ہے اور دوسرا قول یہ ہے کہ اسے کھانا جائز نہیں کیونکہ یہ کچلی والا درندہ ہے لیکن ان میں سے راجح پہلا قول ہے۔ دریائی گھوڑے کا بھی کھانا مذکورہ آیت و حدیث کے پیش نظر جائز ہے اور پھر کسی دلیل سے اس کیخلاف ثابت نہیں ہے اور پھر نص سے ثابت ہے کہ خشکی کا گھوڑا حلال ہے تو دریائی گھوڑا تو بالاولیٰ حلال ہوگا۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج3ص424

محدث فتویٰ

تبصرے