میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ بری و بحری حیوانات میں سے کون سے حرام ہیں کیونکہ میں نے سنا ہے کہ کچھوا‘ کبوتر اور مینڈک کھانا جائز ہے؟
سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ کھانے پینے کی اشیاء میں اصل حلت ہے‘ ہاں البتہ وہ حرام ہیں‘ جن کی حرمت دلائل سے ثابت ہو چکی ہو‘ اگر کسی چیز کی حلت و حرمت میں شک ہو تو وہ حلال ہوگی الایہ کہ دلائل سے ثابت ہو جائے کہ وہ حرام ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’وہی (اللہ) تو ہے جس نے سب چیزیں جو زمین میں ہیں‘ تمہارے لیے پیدا کیں‘‘۔
آیت کریمہ کے یہ الفاظ حیوانات‘ نباتات اور پہننے کی ہر اس چیز کو شامل ہیں جو زمین میں موجود ہو‘ نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب کو اپنے (حکم) سے تمہارے کام میں لگا دیا‘‘۔
اور نبیﷺ نے فرمایا ہے:
’’اللہ نے جس چیز سے سکوت فرمایا ہے‘ وہ قابل معافی ہے‘‘۔
نیز فرمایا:
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے کچھ فرائض مقرر فرمائے ہیں‘ انہیں ضائع نہ کرو‘ کچھ حدود کا تعین کیا ہے ان سے تجاوز نہ کروا ور کچھ چیزوں سے روک دیا ہے ان کی (حرمت کی) پامالی نہ کرو اور کچھ چیزوں سے اس نے تم پر رخصت کے پیش نظر نہ کہ بھول جانے کی وجہ سے سکوت فرمایا ہے تو ان کے بارے میں کرید نہ کرو‘‘۔
ان دلائل کی روشنی میں اصول یہ ہے کہ تمام حیوانات حلال ہیں‘ سوائے ان کے جن کی حرمت دلیل سے ثابت ہوگئی ہو‘ مثلاً پالتو گدھے حرام ہیں کیونکہ حضرت انس بن مالکؓ سے مروی حدیث میں ہے:
’’رسول اللہﷺ نے خیبر کے دن ابو طلحہؓ کو حکم دیا تھا کہ یہ اعلان کر دو‘ بلاشبہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ تم کو گھریلو گدھوں کے گوشت کے کھانے سے منع فرماتے ہیں کیونکہ یہ ناپاک ہیں‘‘۔
اسی طرح ہر وہ درندہ حرام ہے جو کچلی سے شکار کرتا ہو‘ مثلاً بھیڑیا‘ شیر اور ہاتھی وغیرہ نیز ہر وہ پرندہ حرام ہے جو اپنے پنجے سے شکار کرتا ہو‘ مثلاً عقاب‘ باز‘ شکرا‘ شاہین اور چیل وغیرہ نیز وہ جانور بھی حرام ہیں جن کے قتل کرنے کا شریعت نے حکم دیا ہے‘ انہیں تو اس لیے نہیں کھایا جاتا کہ وہ طبعی طور پر موذی ہیں لہٰذا ان کے کھانے سے انسانی طبیعت پر بھی ایذا کا پہلو غالب آئے گا اور کھانے والا شخص انسانوں کو ایذا پہنچانے کے در پے ہوگا۔ اسی طرح جن کے قتل سے شریعت نے منع کیا ہے تو وہ ان کے احترام کی وجہ سے ہے لہٰذا انہیں کھانا بھی جائز نہیں‘ شریعت نے جن جانوروں کے قتل کرنے کا حکم دیا ہے ان میں کوا اور چیل ہے اور جن کے قتل سے منع کیا ہے‘ ان میں چیونٹی‘ شہد کی مکھی‘ ہد ہد اور لٹورا وغیرہ شامل ہیں نیز وہ جانور جو حرام جانور اور حلال جانور کے ملاپ سے پیدا ہو‘ مثلاً خچر تو اس میں حلت و حرمت کے اگرچہ ودونوں پہلو ہوتے ہیں مگر یہاں حرمت کے پہلو کو غلبہ دیا گیا ہے‘ نیز وہ جانور جو مردار خور ہیں‘ ان کو بھی حرام قرار دے دیا گیا ہے مثلاً چیل اور گدھ وغیرہ۔
یہ ہیں وہ سات قسم کے جانور جن کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے ان میں سے بعض کے بارے میں اگرچہ اہل علم میں اختلاف ہے مگر اختلاف کے وقت اشیاء کو ان کے اصول کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے۔
بحری جانور خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے وہ سب کے سب حلال ہیں کیونکہ وہ حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ کے عموم میں داخل ہیں:
’’تمارے لیے دریا کی چیزوں کا شکار اور ان کا کھانا حلال کر دیا گیا ہے (یعنی) تمہارے اور مسافروں کے فائدے کیلئے‘‘۔
سمندر اور دریا کی جو چیزیں پکڑی جائیں ان کا شکار کرنا اور جو مردہ پائی جائیں ان کا کھانا حلال ہے؟ چنانچہ حضرت ابن عباسؓ اور دیگر صحابہ کرام سے اس کی تفسیر اسی طرح مروی ہے نیز نبیﷺ نے بھی دریا اور سمندر کے بارے میں یہ فرمایا ہے:
’’اس کا پانی پاک اور اس کا مردار حلال ہے‘‘۔
اس آیت و حدیث کے عموم کے پیش نظر دریا اور سمندر کی کوئی چیز بھی مستثنیٰ نہیں ہے۔ ہاں البتہ بعض علماء نے مینڈک‘ مگرمچھ اور سانپ کو ضرور مستثنیٰ قرار دیا ہے لیکن راجح بات یہ ہے کہ ہر وہ جانور جو دریا و سمندر (پانی) کے بغیر زندہ نہ رہ سکتا ہو وہ حلال ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب